تفسير ابن كثير



سورۃ النور

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ[26]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔ [26]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] خبیﺚ عورتیں خبیﺚ مردوں کے ﻻئق ہیں اور خبیﺚ مرد خبیﺚ عورتوں کے ﻻئق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے ﻻئق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے ﻻئق ہیں۔ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وه ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی [26]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے۔ اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے۔ یہ (پاک لوگ) ان (بدگویوں) کی باتوں سے بری ہیں (اور) ان کے لئے بخشش اور نیک روزی ہے [26]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 26،

بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں ٭٭

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی بری بات برے لوگوں کے لیے ہے، بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ یعنی اہل نفاق نے سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لیے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چونکہ پاک ہیں اس لیے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں۔

یہ آیت بھی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح سے طیب ہیں، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لیے ہوتی ہیں۔

اسی لیے فرمایا کہ ” یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج وایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لیے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی۔ اور یہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں، جنت عدن میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہیں گی “۔
5898

ایک مرتبہ اسیر بن جابر، عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو عبداللہ نے فرمایا ٹھیک ہے مومن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آ جاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں۔‏‏‏‏ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

مسند احمد میں حدیث ہے کہ جو شخص بہت سی باتیں سنے، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے ۔ [سنن ابن ماجه:4172، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے حکمت کا کلمہ مومن کی گم گشتہ دولت ہے جہاں سے پائے لے لے ۔ [سنن ابن ماجه:4169، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
5899



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.