تفسير ابن كثير



سورۃ المؤمنون

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ[57] وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ[58] وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ[59] وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ[60] أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ[61]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک وہ لوگ جو اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہیں۔ [57] اور وہ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔ [58] اور وہ جو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔ [59] اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں کہ یقینا وہ اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ [60] یہ لوگ ہیں جو بھلائیاں حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کی طرف آگے نکلنے والے ہیں۔ [61]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں [57] اور جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں [58] اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے [59] اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وه اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں [60] یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں [61]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں [57] اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں [58] اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ شریک نہیں کرتے [59] اور جو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے پروردگار کی لوٹ کر جانا ہے [60] یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرے اور یہی اُن کے لئے آگے نکل جاتے ہیں [61]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 57، 58، 59، 60، 61،

مؤمن کی تعریف ٭٭

فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے۔ یہ ان کی صفت ہے حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بے خوف ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے مریم علیہا السلام کا وصف بیان ہوا ہے کہ «وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ» [ 66-التحريم: 12 ] ‏‏‏‏ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضاء اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہرکام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں، ہرخبر کو وہ سچ مانتے ہیں وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں، اللہ کو واحد اور بے نیاز جانتے ہیں اسے بے اولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں، بے نظیر اور بے کفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا، چوری، اور شراب خواری ہو جاتی ہے؟ لیکن ان کے دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، صدقے کرتے ہیں، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي:3175،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اس آیت کی دوسری قرأت «یاتون ما اتوا» بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ابو عاصم گئے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو؟ جواب دیا اس لیے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت «وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ» [ 23- المؤمنون: 60 ] ‏‏‏‏ کے الفاظ کی تحقیق کے لیے حاضر ہوا ہوں آیت «یوتون ما اتوا» ہیں یا «یاتون مااتوا» ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لیے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہو گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم خوش ہو جاؤ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے۔ [مسند احمد:95/6:ضعیف] ‏‏‏‏ اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
5756



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.