[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور وہ تجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور بے شک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔ [47] اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں میں نے مہلت دی، اس حال میں کہ وہ ظالم تھیں، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ [48] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ ہرگز اپنا وعده نہیں ٹالے گا۔ ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے [47] بہت سی ﻇلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا، اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے [48]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے [47] اور بہت سی بستیاں ہیں کہ میں ان کو مہلت دیتا رہا اور وہ نافرمان تھیں۔ پھر میں نے ان کو پکڑ لیا۔ اور میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے [48]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 47، 48،
ذرا صبر ، عذاب کا شوق پورا ہو گا ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے فرما رہا ہے کہ ” یہ ملحد کفار اللہ کو اس کے رسول کو اور قیامت کے دن کو جھٹلانے والے تجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کر رہے ہیں کہ جلد ان عذابوں کو کیوں نہیں برپا کر دیا جاتا جن سے ہمیں ہر وقت ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے “۔
چنانچہ وہ اللہ سے بھی کہتے تھے کہ «وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ»[8-الأنفال:32] ” الٰہی اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے سنگ باری کر یا اور کسی طرح کا درد ناک عذاب بھیج “۔
کہتے تھے کہ «وَقَالُوا رَبّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطّنَا قَبْل يَوْم الْحِسَاب»[38-ص:16] ” حساب کے دن سے پہلے ہی ہمارا معاملہ صاف کر دے “۔
اللہ فرماتا ہے «وَلَنْ يُخْلِف اللَّه وَعْده»[22-الحج:47] ” یاد رکھو اللہ کا وعدہ اٹل ہے قیامت اور عذاب آ کر ہی رہیں گے “۔ اولیاء اللہ کی عزت اور اعداء اللہ کی ذلت یقینی اور ہو کر رہنے والی ہے۔
اصمعی کہتے ہیں میں ابوعمرو بن علا کے پاس تھا کہ عمرو بن عبید آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوعمرو! کیا اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا ”نہیں“، اس نے اسی وقت عذاب کی ایک آیت تلاوت کی اس پر آپ نے فرمایا کیا تو عجمی ہے؟ سن عرب میں «الْوَعْد» کا یعنی اچھی بات سے وعدہ خلافی کو برا فعل سمجھا جاتا ہے لیکن «الْإِيعَاد» کا یعنی سزا کے احکام کا ردو بدل یا معافی بری نہیں سمجھی جاتی بلکہ وہ کرم ورحم سمجھا جاتا ہے دیکھو شاعر کہتا ہے۔ «فَإِنِّي وَإِنْ أَوْعَدْته أَوْ وَعَدْته» «لَمُخْلِف إِيعَادِي وَمُنْجِز مَوْعِدِي» میں کسی کو سزا کہوں یا اس سے انعام کا وعدہ کروں۔ تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں اپنی دھمکی کے خلاف کر جاؤں بلکہ قطعا ہرگز سزا نہ دوں لیکن اپنا وعدہ تو ضرور پورا کر کے ہی رہوں گا۔ الغرض سزا کا وعدہ کر کے سزا نہ کرنا یہ وعدہ خلافی نہیں۔ لیکن رحمت انعام کا وعدہ کر کے پھر روک لینا یہ بری صفت ہے جس سے اللہ کی ذات پاک ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ” ایک ایک دن اللہ کے نزدیک تمہارے ہزار ہزار دنوں کے برابر ہے یہ بہ اعتبار اس کے حلم اور بردباری کے ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ ہر وقت ان کی گرفت پر قادر ہے اس لیے عجلت کیا ہے؟ “ گو کتنی ہی سے مہلت مل جائے، گو کتنی ہی سے رسی دراز ہو جائے لیکن جب چاہے گا سانس لینے کی بھی مہلت نہ دے گا اور پکڑ لے گا۔
اسی لیے اس کے بعد ہی فرمان ہوتا ہے ” بہت سی بستیوں کے لوگ ظلم پر کمر کسے ہوئے تھے، میں نے بھی چشم پوشی کر رکھی تھی۔ جب مست ہو گئے تو اچانک گرفت کر لی، سب مجبور ہیں سب کو میرے ہی سامنے حاضر ہونا ہے، سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے “۔
ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فقراء مسلمان مالدار مسلمانوں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے یعنی پانچ سو برس پہلے ۔ [سنن ترمذي:2353،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
5634
اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آدھے دن کی مقدار کیا ہے؟ فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا؟ میں نے کہا ہاں! تو یہی آیت «وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ» سنائی۔ یعنی ” اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کا ہے “۔
ابوداؤد کی کتاب الملاحم کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری امت کو آدھے دن تک تو ضرور مؤخر رکھے گا ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آدھا دن کتنے عرصے کا ہوگا؟ آپ نے فرمایا پانچ سو سال کا ۔ [سنن ابوداود:4350،قال الشيخ الألباني:صحیح]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت «وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ» کو پڑھ کر فرمانے لگے یہ ان دنوں میں سے جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ [ ابن جریر ]
5635
بلکہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب «الرد علی الجمیه» میں اس بات کو کھلے لفظ میں بیان کیا ہے۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مثل آیت «يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ»[32-السجدة:5] کے ہے یعنی ” اللہ تعالیٰ کام کی تدبیر آسمان سے زمین کی طرف کرتا ہے، پھر اس کی طرف چڑھ جاتا ہے۔ ایک ہی دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے “۔
امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ایک نو مسلم اہل کتاب سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کیا اور ایک دن تیرے رب کے نزدیک مثل ایک ہزار سال کے ہے جو گنتے ہو۔ اللہ نے دنیا کی اجل چھ دن کی کی ہے ساتویں دن قیامت ہے اور ایک ایک دن مثل ہزار ہزار سال کے ہے پس چھ دن تو گزر گئے اور اب تم ساتویں دن میں ہو اب تو بالکل اس حاملہ کی طرح ہے جو پورے دنوں میں ہو اور نہ جانے کب بچہ ہو جائے۔