[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یہ اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ [32] تمھارے لیے ان میں ایک مقرر وقت تک کئی فائدے ہیں، پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ اس قدیم گھر کی طرف ہے۔ [33] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت وحرمت کرے اس کے دل کی پرہیز گاری کی وجہ سے یہ ہے [32] ان میں تمہارے لئے ایک مقرر وقت تک فائده ہے پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ خانہ کعبہ ہے [33]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (یہ ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے [32] ان میں ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے فائدے ہیں پھر ان کو خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) تک پہنچانا (اور ذبح ہونا) ہے [33]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 32، 33،
قربانی کے جانور اور حجاج ٭٭
اللہ کے شعائر کی جن میں قربانی کے جانور بھی شامل ہیں حرمت وعزت بیان ہو رہی ہے کہ ” احکام الٰہی پر عمل کرنا اللہ کے فرمان کی توقیر کرنا ہے “۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی قربانی کے جانوروں کو فربہ اور عمدہ کرنا۔ سہل کا بیان ہے کہ ہم قربانی کے جانوروں کو پال کر انہیں فربہ اور عمدہ کرتے تھے تمام مسلمانوں کا یہی دستور تھا ۔ [صحیح بخاری:9/10]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دو سیاہ رنگ کے جانوروں کے خون سے ایک عمدہ سفید رنگ جانور کا خون اللہ کو زیادہ محبوب ہے ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1861،] پس اگرچہ اور رنگت کے جانور بھی جائز ہیں لیکن سفید رنگ جانور افضل ہیں۔
صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے چتکبرے بڑے بڑے سینگوں والے اپنی قربانی میں ذبح کئے ۔ [صحیح بخاری:5565]
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھا بڑا سینگ والا چت کبرا ذبح کیا جس کے منہ پر آنکھوں کے پاس اور پیروں پر سیاہ رنگ تھا ۔ [سنن ابوداود:2796،قال الشيخ الألباني:صحیح] امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے صحیح کہتے ہیں۔
ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے بہت موٹے تازے چکنے چتکبرے خصی ذبح کئے ۔ [سنن ابن ماجہ:3122،قال الشيخ الألباني:صحیح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہم قربانی کے لیے جانور خریدتے وقت اس کی آنکھوں کو اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا کریں۔ اور آگے سے کٹے ہوئے کان والے پیچھے سے کٹے ہوئے کان والے لمبائی میں چرے ہوئے کان والے یا سوراخ دار کان والے کی قربانی نہ کریں ۔ [سنن ابوداود:2804،قال الشيخ الألباني:صحیح] اسے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ صحیح کہتے ہیں۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے ۔ [سنن ابوداود:2805،قال الشيخ الألباني:ضعیف] اس کی شرح میں سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کہ آدھا یا آدھے سے زیادہ کان یا سینگ نہ ہو۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں اگر اوپر سے کسی جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عربی میں «قصماً» کہتے اور جب نیچے کا حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے «عضب» کہتے۔ اور حدیث میں لفظ «عضب» ہے اور کان کا کچھ حصہ کٹ گیا ہو تو اسے بھی عربی میں «عضب» کہتے ہیں۔
5601
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایسے جانور کی قربانی گو جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جائز ہی نہیں۔ (بظاہر یہی قول مطابق حدیث ہے) امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر سینگ سے خون جاری ہے تو جائز نہیں ورنہ جائز ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ چار قسم کے عیب دار جانور قربانی میں جائز نہیں کانا جانور جس کا بھینگا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور وہ دبلا پتلا مریل جانور جو گودے کے بغیر کا ہو گیا ہو ۔ [سنن ابوداود:2802،قال الشيخ الألباني:صحیح] اسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں۔
یہ عیوب وہ ہیں جن سے جانور گھٹ جاتا ہے۔ اس کا گوشت ناقص ہو جاتا ہے اور بکریاں چرتی چگتی رہتی ہیں اور یہ بوجہ اپنی کمزوری کے چارہ پورہ نہیں پاتا اسی لیے اس حدیث کے مطابق امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اس کی قربانی ناجائز ہے۔ ہاں بیمار جانور کے بارے میں جس کی بیماری خطرناک درجے کی نہ ہو بہت کم ہو امام صاحب کے دونوں قول ہیں۔
5602
ابو داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بالکل سینگ کٹے جانور سینگ ٹوٹے جانور اور کانے جانور سے اور بالکل کمزور جانور سے جو ہمیشہ ہی ریوڑ کے پیچھے رہ جاتا ہو بوجہ کمزوری کے یا بوجہ زیادہ عمر کے اور لنگڑے جانور سے [سنن ابوداود:2803،قال الشيخ الألباني:ضعیف] پس ان کل عیوب والے جانوروں کی قربانی ناجائز ہے۔
ہاں اگر قربانی کے لیے صحیح سالم بےعیب جانور مقرر کر دینے کے بعد اتفاقاً اس میں کوئی ایسی بات آ جائے مثلا لولا لنگڑا وغیرہ ہو جائے تو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی قربانی بلاشبہ جائز ہے، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اس کے خلاف ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قربانی کے لیے جانور خریدا اس پر ایک بھیڑیئے نے حملہ کیا اور اس کی ران کا بوٹا توڑ لیا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسی جانور کی قربانی کر سکتے ہو ۔ [مسند احمد:32/3:ضعیف]
پس خریدتے وقت جانور کا فربہ ہونا تیار ہونا بےعیب ہونا چاہیئے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ آنکھ کان دیکھ لیا کرو ۔ [سنن ابوداود:2804،قال الشيخ الألباني:صحیح]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک نہایت عمدہ اونٹ قربانی کے لیے نامزد کیا لوگوں نے اس کی قیمت تین سو اشرفی لگائیں تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اسے بیچ دوں اور اس کی قیمت سے اور جانور بہت سے خرید لوں اور انہیں راہ للہ قربان کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ اسی کوفی سبیل اللہ ذبح کرو ۔ [سنن ابوداود:1756،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قربانی کے اونٹ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ محمد بن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عرفات میں ٹھہرنا اور مزدلفہ اور رمی جمار اور سر منڈوانا اور قربانی کے اونٹ یہ سب شعائر اللہ ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان سب سے بڑھ کر بیت اللہ شریف ہے۔
5603
پھر فرماتا ہے ” ان جانوروں کے بالوں میں، اون میں تمہارے لیے فوائد ہیں ان پر تم سوار ہوتے ہو ان کی کھالیں تمہارے لیے کار آمد ہیں۔ یہ سب ایک مقررہ وقت تک۔ یعنی جب تک اسے راہ للہ نامزد نہیں کیا۔ ان کا دودھ پیو ان سے نسلیں حاصل کرو جب قربانی کے لیے مقرر کر دیا پھر وہ اللہ کی چیز ہو گیا “۔
بزرگ کہتے ہیں اگر ضرورت ہو تو اب بھی سواری کی اجازت ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ ایک شخص کو اپنی قربانی کا جانور ہانکتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ ۔ اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے قربانی کی نیت کا کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری بار فرمایا افسوس بیٹھ کیوں نہیں جاتا ۔ [صحیح بخاری:1690]
صحیح مسلم شریف میں ہے جب ضرورت اور حاجت ہو تو سوار ہو جایا کرو ۔ [صحیح مسلم:1324]
ایک شخص کی قربانی کی اونٹنی نے بچہ دیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ اس کو دودھ پیٹ بھر کر پی لینے دے پھر اگر بچ رہے تو خیر تو اپنے کام میں لا اور قربانی والے دن اسے اور اس بچے کو دونوں کو بنام اللہ ذبح کر دے۔
پھر فرماتا ہے ” ان کی قربان گاہ بیت اللہ شریف ہے “۔ جیسے فرمان ہے آیت «هَدْيًا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ»[5-المائدۃ:95] اور آیت میں «وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ»[48-الفتح:25] بیت العتیق کے معنی اس سے پہلے ابھی ابھی بیان ہو چکے ہیں «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بیت اللہ کا طواف کرنے والا احرام سے حلال ہو جاتا ہے۔ دلیل میں یہی آیت «لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ»[22-الحج:33] تلاوت فرمائی۔