[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو وہ اپنے دلوں کی طرف لوٹے اور کہنے لگے یقینا تم خود ہی ظالم ہو۔ [64] پھر وہ اپنے سروں پر الٹے کر دیے گئے، بلاشبہ یقینا تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ [65] کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا اس چیز کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھیں کچھ نفع دیتی ہے اور نہ تمھیں نقصان پہنچاتی ہے؟ [66] اف ہے تم پر اور ان چیزوں پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، تو کیا تم سمجھتے نہیں۔ [67] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقعی ﻇالم تو تم ہی ہو [64] پھر اپنے سروں کے بل اوندھے ہوگئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے والے نہیں [65] اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوه ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان [66] تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟ [67]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] انہوں نے اپنے دل غور کیا تو آپس میں کہنے لگے بےشک تم ہی بےانصاف ہو [64] پھر (شرمندہ ہو کر) سر نیچا کرلیا (اس پر بھی ابراہیم سے کہنے لگے کہ) تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں [65] (ابراہیم نے) کہا پھر تم خدا کو چھوڑ کر کیوں ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور نقصان پہنچا سکیں؟ [66] تف ہے تم پر اور جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ [67]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 64، 65، 66، 67،
اپنی حماقت سے پریشان کافر ٭٭
بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہو گیا۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے۔ سخت ندامت اٹھائی اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے۔ پھر غور وفکر کر کے بات بنائی کہ آپ علیہ السلام جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ علیہ السلام کو علم نہیں کہ یہ بت بے زبان ہیں؟
عاجزی، حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا۔ اب خلیل اللہ علیہ السلام کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ علیہ السلام فوراً فرمانے لگے کہ ”بے زبان، بے نفع و ضرر چیز کی عبادت کیسی؟ تم کیوں اس قدر بے سمجھ ہو رہے ہو؟ تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے خداؤں پر۔ آہ کس قدر ظلم وجہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے؟ یہی تھیں وہ دلیلیں جن کا ذکر پہلے ہوا تھا کہ «وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ»[6-الأنعام:83] ” ہم نے ابراہیم کو وہ دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے “۔
5454
آگ گلستان بن گئی ٭٭
یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہو جاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آ جاتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کو ان کی بدبختی نے گھیرلیا اور دلیل سے عاجز آ کر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے۔ آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے۔ اس بات پر سب نے اتفاق کر لیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفاء ہو جائے تو ابراہیم علیہ السلام کے جلانے کو لکڑیاں لائیں گی۔
زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا، لکڑیوں سے اسے پر کیا اور انبار کھڑا کر کے اس میں آگ لگائی۔ روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے، اس کے پاس جانا محال ہو گیا، اب گھبرائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالیں کیسے؟ آخر ایک کردی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا، ایک منجنیق تیار کرائی گئی کہ اس میں بٹھا کر جھولا کر پھینک دو۔ [تفسیر قرطبی:303/11:] مروی ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے۔
جب آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا «حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ»[3-آل عمران:173] ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے آ رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی پڑھا تھا ۔ [صحیح بخاری:4563]
یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا، «اللَّهُمَّ إِنَّكَ فِي السَّمَاءِ وَاحِدٌ وَأَنَا فِي الْأَرْضِ وَاحِدٌ أَعْبُدُكَ»”الٰہی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں۔“[مسند بزار:2349:ضعیف]
مروی ہے کہ جب کافر آپ علیہ السلام کو باندھنے لگے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا، ”الٰہی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، تیری ذات پاک ہے، تمام حمد و ثنا تیرے ہی لیے سزاوار ہے۔ سارے ملک کا تو اکیلا ہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک و ساجھی نہیں۔“ شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ ”اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر صرف سولہ سال کی تھی۔“ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
5455
بعض سلف سے منقول ہے کہ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام کے سامنے آسمان و زمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا، ”کیا آپ علیہ السلام کو کوئی حاجت ہے؟“ آپ علیہ السلام نے جواب دیا ”تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پر بارش برسا کر اسے ٹھنڈی کر دوں لیکن براہ راست حکم الٰہی آگ کو ہی پہنچا کہ ” میرے خلیل پر تو سلامتی اور ٹھنڈک بن جا “۔ فرماتے ہیں کہ ”اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہوگئی۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:466/18:]
کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا، اور ابراہیم علیہ السلام کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ علیہ السلام کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، ”آگ کو حکم ہوا کہ وہ خلیل اللہ علیہ السلام کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اگر آگ کو صرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ علیہ السلام کو ضرر پہنچاتی، [تفسیر ابن جریر الطبری:466/18:] اس لیے ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ ” ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا “۔ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام کے ساتھ تھے، آپ علیہ السلام کے منہ پر سے پسینا پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آگ نے کوئی تکلیف نہیں دی۔
5456
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ”سایہ یا فرشتہ اس وقت آپ علیہ السلام کے ساتھ تھا۔“ مروی ہے کہ آپ علیہ السلام اس میں چالیس یا پچاس دن رہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ”مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا، کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی۔“[الدر المنشور للسیوطی:479/4:ضعیف]