[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب تجھے وہ لوگ دیکھتے ہیں جنھوں نے کفر کیا تو تجھے مذاق ہی بناتے ہیں، کیا یہی ہے جو تمھارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے، اور وہ خود رحمان کے ذکر ہی سے منکر ہیں۔ [36] انسان سراسر جلد باز پیدا کیا گیا ہے، میں عنقریب تمھیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا، سو مجھ سے جلدی کا مطالبہ نہ کرو۔ [37] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہ منکرین تجھے جب بھی دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں کہ کیا یہی وه ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا ہے، اور وه خود ہی رحمٰن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں [36] انسان جلد باز مخلوق ہے۔ میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو [37]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب کافر تم کو دیکھتے ہیں تو تم سے استہزاء کرتے ہیں کہ کیا یہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر (برائی سے) کیا کرتا ہے حالانکہ وہ خود رحمٰن کے نام سے منکر ہیں [36] انسان (کچھ ایسا جلد باز ہے کہ گویا) جلد بازی ہی سے بنایا گیا ہے۔ میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤں گا تو تم جلدی نہ کرو [37]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 36، 37،
جلد باز انسان ٭٭
ابوجہل وغیرہ کفار قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ہنسی مذاق شروع کردیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی کرنے لگتے۔ کہنے لگتے کہ لو میاں دیکھ لو، یہی ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں، تمہارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہیں۔ ایک تو ان کی یہ سرکشی ہے۔ دوسرے یہ کہ خود ذکر رحمن کے منکر ہیں۔ اللہ کے منکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر۔
اور آیت میں ان کے اسی کفر کا بیان کر کے فرمایا گیا ہے آیت «وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَـٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّـهُ رَسُولًا إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا»[25-الفرقان:41-42] یعنی ” وہ تو کہیے ہم جمے رہے ورنہ اس نے تو ہمیں ہمارے پرانے معبودوں سے برگشتہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ خیر انہیں عذاب کے معائنہ سے معلوم ہو جائے گا کہ گمراہ کون تھا؟ “ «وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا»[17-الاسراء:11] ” انسان بڑا ہی جلدباز ہے “۔
مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ”اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی پیدائش کے بعد آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کیا۔ شام کے قریب جب ان میں روح پھونکی گئی، سر، آنکھ اور زبان میں جب روح آ گئی تو کہنے لگے، الٰہی مغرب سے پہلے ہی میری پیدائش مکمل ہو جائے۔“
5419
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، تمام دنوں میں بہتر و افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اسی میں جنت میں داخل ہوئے اسی میں وہاں سے اتارے گئے، اسی میں قیامت قائم ہوگی، اسی دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت جو بندہ نماز میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو کچھ طلب کرے، اللہ اسے عطا فرماتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ وہ ساعت کون سی ہے وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ [سنن ابوداود:1046، قال الشيخ الألباني:صحیح]
پہلی آیت میں کافروں کی بدبختی کا ذکر کرکے اس کے بعد ہی انسانی عجلت کا ذکر اس حکمت سے ہے کہ گویا کافروں کی سرکشی سنتے ہی مسلمان کا انتقامی جذبہ بھڑک اٹھتا ہے اور وہ جلد بدلہ لینا چاہتا ہے اس لیے کہ انسانی جبلت میں ہی جلدبازی ہے۔ لیکن عادت الٰہی یہ ہے کہ وہ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے۔ پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں۔
اسی لیے فرمایا کہ ” میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھانے والا ہی ہوں کہ عاصیوں پر کس طرح سختی ہوتی ہے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مذاق میں اڑانے والوں کی کس طرح کھال ادھڑتی ہے۔ تم ابھی ہی دیکھ لو گے۔ جلدی نہ مچاؤ، دیر ہے اندھیر نہیں، مہلت ہے بھول نہیں “۔