[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بلاشبہ یقینا ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے، جس میں تمھارا ذکر ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟ [10] اور کتنی ہی بستیاں ہم نے توڑ کر رکھ دیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد اور لوگ نئے پیدا کر دیے۔ [11] تو جب انھوں نے ہمارا عذاب محسوس کیا اچانک وہ ان (بستیوں) سے بھاگ رہے تھے۔ [12] بھاگو نہیں اور ان (جگہوں) کی طرف واپس آئو جن میں تمھیں خوش حالی دی گئی تھی اور اپنے گھروں کی طرف، تاکہ تم سے پوچھا جائے۔ [13] انھوں نے کہا ہائے ہماری بربادی! یقینا ہم ظالم تھے۔ [14] تو ان کی پکار ہمیشہ یہی رہی، یہاں تک کہ ہم نے انھیں کٹے ہوئے، بجھے ہوئے بنا دیا۔ [15] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لئے ذکر ہے، کیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے؟ [10] اور بہت سی بستیاں ہم نے تباه کر دیں جو ﻇالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کر دیا [11] جب انہوں نے ہمارے عذاب کا احساس کر لیا، تو لگے اس سے بھاگنے [12] بھاگ دوڑ نہ کرو اور جہاں تمہیں آسودگی دی گئی تھی وہیں واپس لوٹو اور اپنے مکانات کی طرف جاؤ تاکہ تم سے سوال تو کر لیا جائے [13] کہنے لگے ہائے ہماری خرابی! بیشک ہم ﻇالم تھے [14] پھر تو ان کا یہی قول تھا یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی پڑی آگ (کی طرح) کر دیا [15]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے [10] اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ستمگار تھیں ہلاک کر مارا اور ان کے بعد اور لوگ پیدا کردیئے [11] جب انہوں نے ہمارے (مقدمہ) عذاب کو دیکھا تو لگے اس سے بھاگنے [12] مت بھاگو اور جن (نعمتوں) میں تم عیش وآسائش کرتے تھے ان کی اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ۔ شاید تم سے (اس بارے میں) دریافت کیا جائے [13] کہنے لگے ہائے شامت بےشک ہم ظالم تھے [14] تو وہ ہمیشہ اسی طرح پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو (کھیتی کی طرح) کاٹ کر (اور آگ کی طرح) بجھا کر ڈھیر کردیا [15]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 10، 11، 12، 13، 14، 15،
قدر ناشناس لوگ ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی قدر و منزلت پر رغبت دلانے کے لیے فرماتا ہے کہ ” ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اتاری ہے جس میں تمہاری بزرگی ہے، تمہارا دین، تمہاری شریعت اور تمہاری باتیں ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدر نہیں کرتے؟ اور اس اتنی بڑی شرافت والی کتاب سے غفلت برت رہے ہو؟ “[تفسیر ابن جریر الطبری:611/21:]
جیسے اور آیت میں ہے «وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ»[43-الزخرف:44] ” تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے یہ نصیحت ہے اور تم اس کے بارے میں ابھی بھی سوال کئے جاؤ گے “۔
5385
پھر فرماتا ہے ” ہم نے بہت سی بستیوں کے ظالموں کو پیس کر رکھ دیا ہے “۔ اور آیت میں ہے، «وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ»[17-الإسراء:17] ” ہم نے نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی بستیاں ہلاک کر دیں “۔
اور آیت میں ہے «فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ»[22-الحج:45] ” کتنی ایک بستیاں ہیں جو پہلے بہت عروج پر اور انتہائی رونق پر تھیں لیکن پھر وہاں کے لوگوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے ان کا چورا کر دیا، بھس اڑا دیا، آبادی ویرانی سے اور رونق سنسان سناٹے میں بدل گئی “۔
ان کی ہلاکت کے بعد اور لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا، ایک قوم کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری یونہی آتی رہیں۔ جب ان لوگوں نے عذابوں کو آتا دیکھ لیا، یقین ہو گیا کہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اللہ کے عذاب آگئے تو اس وقت گھبرا کر راہ فرار ڈھونڈنے لگے، ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے لگے۔
” اب بھاگو دوڑو نہیں بلکہ اپنے محلات میں اور عیش وعشرت کے سامانوں میں پھر آ جاؤ تاکہ تم سے سوال جواب تو ہو جائے کہ تم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا بھی کیا یا نہیں؟ “ یہ فرمان بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں ذلیل وحقیر کرنے کے ہوگا۔ اس وقت یہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے، صاف کہیں گے کہ بے شک ہم ظالم تھے لیکن اس وقت کا اقرار بالکل بے نفع ہے۔ پھر تو یہ اقراری ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا ناس ہو جائے اور ان کی آواز دبا دی جائے اور یہ مسل دیئے جائیں۔ ان کا چلنا پھرنا، آنا جانا، بولنا چالنا سب یک قلم بند ہو جائے۔