[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور تجھے تیری قوم سے جلد کیا چیزلے آئی اے موسیٰ!؟ [83] کہا وہ یہ میرے نشان قدم پر ہیں اور میں تیری طرف جلدی آگیا اے میرے رب! تاکہ تو خوش ہو جائے۔ [84] فرمایا پھر بے شک ہم نے تو تیری قوم کو تیرے بعد آزمائش میں ڈال دیا ہے اور انھیں سامری نے گمراہ کر دیاہے۔ [85] تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا غصے سے بھرا ہوا، افسوس کرتا ہوا، کہا اے میری قوم! کیا تمھارے رب نے تمھیں اچھا وعدہ نہ دیا تھا؟ پھر کیا وہ مدت تم پر لمبی ہوگئی، یا تم نے چاہا کہ تم پر تمھارے رب کی طرف سے کوئی غضب اترے؟ تو تم نے میرے وعدے کی خلاف ورزی کی۔ [86] انھوں نے کہا ہم نے اپنے اختیار سے تیرے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی اور لیکن ہم پر لوگوں کے زیوروں کے کچھ بوجھ لاد دیے گئے تھے تو ہم نے انھیں پھینک دیا، پھر اس طرح سامری نے (بنا) ڈالا۔ [87] پس اس نے ان کے لیے ایک بچھڑا نکالا، جو محض جسم تھا، اس کے لیے گائے کی آواز تھی، تو انھوں نے کہا یہی تمھارا معبود اور موسیٰ کا معبود ہے، سو وہ بھول گیا۔ [88] تو کیا وہ دیکھتے نہیں کہ وہ نہ ان کی کسی بات کا جو اب دیتا ہے اور نہ ان کے کسی نقصان کا مالک ہے اور نہ کسی نفع کا۔ [89] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے موسیٰ! تجھے اپنی قوم سے (غافل کرکے) کون سی چیز جلدی لے آئی؟ [83] کہا کہ وه لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے ہیں، اور میں نے اے رب! تیری طرف جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہو جائے [84] فرمایا! ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے [85] پس موسیٰ (علیہ السلام) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے، اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعده نہیں کیا تھا؟ کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی؟ بلکہ تمہارا اراده ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کا خلاف کیا [86] انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنےاختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کا خلاف نہیں کیا۔ بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ ﻻد دیے گئے تھے انہیں ہم نے ڈال دیا، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے [87] پھر اس نے لوگوں کے لئے ایک بچھڑا نکال کھڑا کیا یعنی بچھڑے کا بت، جس کی گائے کی سی آواز بھی تھی پھر کہنے لگے کہ یہی تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی، لیکن موسیٰ بھول گیا ہے [88] کیا یہ گمراه لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وه تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے [89]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اے موسیٰ تم نے اپنی قوم سے (آگے چلے آنے میں) کیوں جلدی کی [83] کہا وہ میرے پیچھے (آ رہے) ہیں اور اے پروردگار میں نے تیری طرف (آنے کی) جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہو [84] فرمایا کہ ہم نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے ان کو بہکا دیا ہے [85] اور موسیٰ غصّے اور غم کی حالت میں اپنی قوم کے پاس واپس آئے (اور) کہنے لگے کہ اے قوم کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا (میری جدائی کی) مدت تمہیں دراز (معلوم) ہوئی یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے غضب نازل ہو۔ اور (اس لئے) تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا (اس کے) خلاف کیا [86] وہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے اختیار سے تم سے وعدہ خلاف نہیں کیا۔ بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے اس کو (آگ میں) ڈال دیا اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا [87] تو اس نے ان کے لئے ایک بچھڑا بنا دیا (یعنی اس کا) قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی۔ تو لوگ کہنے لگے کہ یہی تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے۔ مگر وہ بھول گئے ہیں [88] کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔ اور نہ ان کے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتا ہے [89]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 83، 84، 85، 86، 87، 88، 89،
بنی اسرائیل کا دریا پار جانا ٭٭
موسیٰ علیہ السلام جب دریا پار کر کے نکل گئے تو ایک جگہ پہنچے جہاں کے لوگ اپنے بتوں کے مجاور بن کر بیٹھے ہوئے تھے تو بنی اسرائیل کہنے لگے، موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے لیے بھی ان کی طرح کوئی معبود مقرر کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو، یہ تو برباد شدہ لوگ ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے۔ پورے چالیس ہو گئے، دن رات روزے سے رہتے تھے۔ اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے۔ بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو خلیفہ مقرر کیا۔ وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں، آ رہے ہیں، میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضا مندی حاصل کر لوں اور اس میں بڑھ جاؤں۔
5305
موسی علیہ السلام کے بعد پھر شرک ٭٭
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گئوسالہ پرستی شروع کر دی ہے۔ اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے۔ اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمانے کے لیے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھیں، جیسے فرمان ہے «وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ» [7-الأعراف:145] ۔ ” یعنی ہم نے اس کے لیے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہرچیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا۔ “
موسیٰ علیہ السلام کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم و غصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ غم و اندوہ، رنج و غصہ آپ کو بہت آیا۔
5306
واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے، تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک و انعام کئے لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا۔ تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا۔
اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا، بات یہ ہے کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لیے ہوئے تھے، ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چنانچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیزگاری کے پھینک دئیے۔
ایک روایت میں ہے کہ خود ہارون علیہ السلام نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ہارون علیہ السلام کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایکجا ہو جائیں اور پگھل کر ایک ڈلا بن جائے۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام آ جائیں جیسا وہ فرمائیں ویسا کیا جائے۔
سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور ہارون علیہ السلام سے کہا، آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے، آپ کو کیا خبر تھی، آپ نے دعا کی۔ اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آوازبھی نکلے چنانچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہو گیا۔ پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔
5307
ہارون علیہ السلام ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے، تو وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا۔ آپ نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ! خود اسے ایسا ہی کر دے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے۔ سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا۔
بنی اسرائیل بہکاوے میں آ گئے اور اس کی پرستش شروع کر دی۔ اس کی آواز پر یہ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے۔ موسیٰ بھول کر کہیں اور اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں، وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارا رب یہی ہے۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی۔
یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ کو اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا۔ ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بے جان چیز ہے۔ ان کی کسی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے، نہ دنیا و آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں۔ آواز جو نکلتی تھی، اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچھے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی، اسی کی آواز آتی تھی۔
اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لیے بڑا گناہ کر لیا۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لیے شرک شروع کر دیا۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ آپ نے فرمایا، ان عراقیوں کو دیکھو، بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو تو قتل کر دیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں؟ [صحیح بخاری:5994]