تفسير ابن كثير



سورۃ طه

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى[65] قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى[66] فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى[67] قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى[68] وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى[69] فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى[70]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] انھوں نے کہا اے موسیٰ! یا تو یہ کہ تو پھینکے اور یا یہ کہ ہم پہلے ہوں جو پھینکے۔ [65] کہا بلکہ تم پھینکو، تو اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں، اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا، ان کے جادو کی وجہ سے کہ واقعی وہ دوڑ رہی ہیں۔ [66] تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔ [67] ہم نے کہا خوف نہ کر، یقینا تو ہی غالب ہے۔ [68] اور پھینک جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے، وہ نگل جائے گا جو کچھ انھوں نے بنایا ہے، بے شک انھوں نے جو کچھ بنایا ہے وہ جادوگر کی چال ہے اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا جہاں بھی آئے۔ [69] تو جادو گر گرا دیے گئے، اس حال میں کہ سجدہ کرنے والے تھے، انھوں نے کہا ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔ [70]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہنے لگے کہ اے موسیٰ! یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں [65] جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو۔ اب تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں [66] پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا [67] ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا [68] اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈالدے کہ ان کی تمام کاریگری کووه نگل جائے، انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا [69] اب تو تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ (علیہما السلام) کے رب پر ایمان ﻻئے [70]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بولے کہ موسیٰ یا تم (اپنی چیز) ڈالو یا ہم (اپنی چیزیں) پہلے ڈالتے ہیں [65] موسیٰ نے کہا نہیں تم ہی ڈالو۔ (جب انہوں نے چیزیں ڈالیں) تو ناگہاں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسی کے خیال میں ایسی آنے لگیں کہ وہ (میدان) میں ادھر اُدھر دوڑ رہی ہیں [66] (اُس وقت) موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا [67] ہم نے کہا خوف نہ کرو بلاشبہ تم ہی غالب ہو [68] اور جو چیز (یعنی لاٹھی) تمہارے داہنے ہاتھ میں ہے اسے ڈال دو کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے اس کو نگل جائے گی۔ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے (یہ تو) جادوگروں کے ہتھکنڈے ہیں اور جادوگر جہاں جائے فلاح نہیں پائے گا [69] (القصہ یوں ہی ہوا) تو جادوگر سجدے میں گر پڑے (اور) کہنے لگے کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے پروردگار پر ایمان لائے [70]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 65، 66، 67، 68، 69، 70،

مقابلہ شروع ہوا ٭٭

جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اب بتاؤ، تم اپنا وار پہلے کرتے ہو یا ہم پہل کریں؟ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا، تم ہی پہلے اپنے دل کی بھڑاس نکال لو تاکہ دنیا دیکھ لے کہ تم نے کیا کیا؟ اور پھر اللہ نے تمہارے کئے کو کس طرح مٹا دیا؟ «‏‏‏‏فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ» [26-الشعراء:44] ‏‏‏‏

اسی وقت انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں۔ کچھ ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا وہ سانپ بن کر چل پھر رہی ہیں اور میدان میں دوڑ بھاگ رہی ہیں۔ کہنے لگے فرعون کے اقبال سے غالب ہم ہی رہیں گے، «سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ» [7-الأعراف:116] ‏‏‏‏

لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں خوفزدہ کر دیا اور جادو کے زبردست کرتب دکھا دیئے۔ یہ لوگ بہت زیادہ تھے۔ ان کی پھینکی ہوئی رسیوں اور لاٹھیوں سے اب سارے کا سارا میدان سانپوں سے پر ہو گیا، وہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر اوپر تلے ہونے لگے۔ اس منظر نے موسیٰ علیہ السلام کو خوفزدہ کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو لوگ ان کے کرتب کے قائل ہو جائیں اور اس باطل میں پھنس جائیں۔ اسی وقت جناب باری نے وحی نازل فرمائی کہ اپنے داہنے ہاتھ کی لکڑی کو میدان میں ڈال دو، ہراساں نہ ہو۔

آپ نے حکم کی تعمیل کی۔ اللہ کے حکم سے یہ لکڑی ایک زبردست بیمثال اژدھا بن گئی، جس کے پیر بھی تھے اور سر بھی تھا۔ کچلیاں اور دانت بھی تھے۔ اس نے سب کے دیکھتے سارے میدان کو صاف کر دیا۔ اس نے جادوگروں کے جتنے کرتب تھے، سب کو ہڑپ کر لیا۔ اب سب پر حق واضح ہو گیا، معجزے اور جادو میں تمیز ہو گئی۔ حق و باطل میں پہچان ہو گئی۔ سب نے جان لیا کہ جادوگروں کی بناوٹ میں اصلیت کچھ بھی نہ تھی۔ فی الواقع جادوگر کوئی چال چلیں لیکن اس میں غالب نہیں آ سکتے۔
5281

ابن ابی حاتم میں حدیث ہے، ترمذی میں بھی موقوفاً اور مرفوعاً مروی ہے کہ جادوگر کو جہاں پکڑو، مار ڈالو۔ [سنن ترمذي:1460،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر آپ نے یہی جملہ تلاوت فرمایا۔ یعنی جہاں پایا جائے امن نہ دیا جائے۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا، انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کام انسانی طاقت سے خارج ہے۔ وہ جادو کے فن میں ماہر تھے، بہ یک نگاہ پہچان گئے کہ واقعی یہ اس اللہ کا کام ہے جسکے فرمان اٹل ہیں، جو کچھ وہ چاہے اس کے حکم سے ہو جاتا ہے۔ اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں۔ اس کا اتنا کامل یقین انہیں ہو گیا کہ اسی وقت اسی میدان میں سب کے سامنے بادشاہ کی موجودگی میں وہ اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہو گئے اور پکار اٹھے کہ «قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ» ‏‏‏‏ [26-الشعراء:47-48] ‏‏‏‏ ” ہم رب العالمین پر یعنی ہارون اور موسیٰ علیہما السلام کے پروردگار پر ایمان لائے۔ “

سبحان اللہ! صبح کے وقت کافر اور جادوگر تھے اور شام کو پاکباز مومن اور اللہ کی راہ کے شہید تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزار تھی یا ستر ہزار یا کچھ اوپر تیس ہزار یا انیس ہزار یا پندرہ ہزار یا بارہ ہزار۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ ستر تھے۔ صبح جادوگر، شام کو شہید۔ مروی ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے، اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت دکھا دی اور انہوں نے اپنی منزلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
5282



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.