[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمھارے لیے اس میں راستے جاری کیے اور آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ کئی قسمیں مختلف نباتات سے نکالیں۔ [53] کھاؤ اور اپنے چوپایوں کو چرائو، بے شک اس میں عقلوں والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔ [54] اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک اور بار نکالیں گے۔ [55] اور بلاشبہ یقینا ہم نے اسے اپنی نشانیاں سب کی سب دکھلائیں، پس اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا۔ [56] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا ہے اور اس میں تمہارے چلنے کے لئے راستے بنائے ہیں اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتا ہے، پھر اس برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں [53] تم خود کھاؤ اور اپنے چوپایوں کو بھی چراؤ۔ کچھ شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں [54] اسی زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوباره تم سب کو نکال کھڑا کریں گے [55] ہم نے اسےاپنی سب نشانیاں دکھا دیں لیکن پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا [56]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] وہ (وہی تو ہے) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے اور آسمان سے پانی برسایا۔ پھر اس سے انواع واقسام کی مختلف روئیدگیاں پیدا کیں [53] کہ (خود بھی) کھاؤ اور اپنے چارپایوں کو بھی چراؤ۔ بےشک ان (باتوں) میں عقل والوں کے لئے (بہت سی) نشانیاں ہیں [54] اسی (زمین) سے ہم تم کو پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری دفعہ نکالیں گے [55] اور ہم نے فرعون کو اپنی سب نشانیاں دکھائیں مگر وہ تکذیب وانکار ہی کرتا رہا [56]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 53، 54، 55، 56،
اللہ رب العزت کا تعارف ٭٭
موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الٰہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لیے فرش بنایا ہے۔ «مَهْدًا» کی دوسری قرأت «مھَادًا» ہے۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو۔ «وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ»[21-الأنبياء:31] ” اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لیے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو۔ “
اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے۔ کھیتیاں، باغات، میوے، قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھا لو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو۔ تمہارا کھانا اور میوے، تمہارے جانوروں کا چارا، خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے۔
جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں، ان کے لیے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں اللہ کی الوہیت، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے، تمہاری ابتداء اسی سے ہے۔ اس لیے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے۔ «يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا» [17-الإسراء:52] ” ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی تھوڑی دیر رہے۔ “
جیسے اور آیت میں ہے کہ «قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ» [7-الأعراف:25] ” اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی، مر کر بھی اسی میں جاؤ گے، پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے۔“
سنن کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا «مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ» دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا «وَفِيهَا نُعِيدكُمْ» تیسری بار فرمایا «وَمِنْهَا نُخْرِجكُمْ تَارَة أُخْرَى» ۔
الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لیے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا، کفر، سرکشی، ضد اور تکبر سے باز نہ آیا۔ جیسے فرمان ہے «وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ»[27-النمل:14] ” یعنی باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے۔ “