تفسير ابن كثير



سورۃ طه

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى[20] قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى[21] وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى[22]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو اس نے اسے پھینکا تو اچانک وہ ایک سانپ تھا جو دوڑتا تھا۔ [20] فرمایا اسے پکڑ اور ڈر نہیں، عنقریب ہم اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ [21] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو کی طرف ملا، وہ کسی عیب کے بغیر سفید (چمکتا ہوا) نکلے گا، اس حال میں کہ ایک اور نشانی ہے۔ [22]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ڈالتے ہی وه سانﭗ بن کر دوڑنے لگی [20] فرمایا بے خوف ہو کر اسے پکڑ لے، ہم اسے اسی پہلی سی صورت میں دوباره ﻻ دیں گے [21] اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال لے تو وه سفید چمکتا ہوا ہو کر نکلے گا، لیکن بغیر کسی عیب (اور روگ) کے یہ دوسرا معجزه ہے [22]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو انہوں نے اس کو ڈال دیا اور وہ ناگہاں سانپ بن کر دوڑنے لگا [20] خدا نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو اور ڈرنا مت۔ ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے [21] اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے لگالو وہ کسی عیب (وبیماری) کے بغیر سفید (چمکتا دمکتا) نکلے گا۔ (یہ) دوسری نشانی (ہے) [22]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 20، 21، 22،

باب

” پہلا معجزہ “ موسیٰ علیہ السلام کو لکڑی کا لکڑی ہونا جتا کر انہیں بخوبی بیدار اور ہوشیار کر کے حکم ملا کہ اسے زمین پر ڈال دو۔ زمین پر پڑتے ہی وہ ایک زبردست اژدھے کی صورت میں پھنپھناتی ہوئی ادھر ادھر چلنے پھرنے بلکہ دوڑنے بھاگنے لگی۔ ایسا خوفناک اژدھا اس سے پہلے کسی نے دیکھا ہی نہ تھا۔ اس کی تو یہ حالت تھی کہ ایک درخت سامنے آ گیا تو یہ اسے ہضم کر گیا۔ ایک پتھر کی چٹان راستے میں آ گئی تو اس کا لقمہ بنا گیا۔ یہ حال دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام الٹے پاؤں بھاگے۔ آواز دی گئی کہ موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) پکڑ لے لیکن ہمت نہ پڑی، پھر فرمایا موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) ڈر نہیں پکڑ لے پھر بھی جھجک باقی رہی۔ تیسری مرتبہ فرمایا تو ہمارے امن میں ہے، اب ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔

کہتے ہیں فرمان الٰہی کے ساتھ ہی آپ نے لکڑی زمین پر ڈال دی، پھر ادھر ادھر آپ کی نگاہ ہو گئی، اب جو نظر ڈالی بجائے لکڑی کے ایک خوفناک اژدھا دکھائی دیا جو اس طرح چل پھر رہا ہے جیسے کسی کی جستجو میں ہو۔ گابھن اونٹنی جیسے بڑے بڑے پتھروں کو، آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے درختوں کو ایک لقمے میں ہی پیٹ میں پہنچا رہا ہے، آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی ہیں۔ اس ہیبت ناک خونخوار اژدھے کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام سہم گئے اور پیٹھ موڑ کر زور سے بھاگے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی یاد آ گئی تو شرما کر ٹھہر گئے، وہیں آواز آئی کہ موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) لوٹ کر وہیں آ جاؤ جہاں تھے، آپ لوٹے لیکن نہایت خوفزدہ تھے۔

تو حکم ہوا کہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے تھام لو، کچھ بھی خوف نہ کرو، ہم اسے اس کی اسی اگلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام صوف کا کمبل اوڑھے ہوئے تھے جسے ایک کانٹے سے اٹکا رکھا تھا۔ آپ نے اسی کمبل کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر اس ہیبت ناک اژدھے کو پکڑنا چاہا تو فرشتے نے کہا موسیٰ علیہ السلام اگر اللہ تعالیٰ اسے کاٹنے کا حکم دیدے تو کیا تیرا یہ کمبل بچا سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں، لیکن یہ حرکت مجھ سے بہ سبب میرے ضعف کے سرزد ہو گئی، میں ضعیف اور کمزور ہی پیدا کیا گیا ہوں۔

اب دلیری کے ساتھ کمبل ہٹا کر ہاتھ بڑھا کر اس کے سر کو تھام لیا اسی وقت وہ اژدھا پھر لکڑی بن گیا جیسے پہلے تھا۔ اس وقت جب کہ آپ اس گھاٹی پر چڑھ رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں یہ لکڑی تھی جس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، اسی حال میں آپ نے پہلے دیکھا تھا اسی حالت پر اب ہاتھ میں بصورت عصا موجود تھا۔
5201



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.