تفسير ابن كثير



سورۃ مريم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[8] قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا[9]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہا اے میرے رب! میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا جب کہ میری بیوی شروع سے بانجھ ہے اور میں تو بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ گیا ہوں۔ [8] کہا ایسے ہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے یہ میرے لیے آسان ہے اور یقینا میں نے تجھے اس سے پہلے پیدا کیا جب کہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ [9]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، جبکہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں [8] ارشاد ہوا کہ وعده اسی طرح ہو چکا، تیرے رب نے فرما دیا ہے کہ مجھ پر تو یہ بالکل آسان ہے اور تو خود جبکہ کچھ نہ تھا میں تجھے پیدا کر چکا ہوں [9]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا ہوگا۔ جس حال میں میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں [8] حکم ہوا کہ اسی طرح (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے یہ آسان ہے اور میں پہلے تم کو بھی تو پیدا کرچکا ہوں اور تم کچھ چیز نہ تھے [9]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 8، 9،

بشارت قبولیت سن کر ٭٭

حضرت زکریا علیہ السلام اپنی دعا کی قبولیت اور اپنے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت سن کر خوشی اور تعجب سے کیفیت دریافت کرنے لگے کہ بظاہر اسباب تو یہ امر مستبعد اور ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ دونوں جانب سے حالت محض ناامیدی کی ہے۔ بیوی بانجھ جس سے اب تک اولاد نہیں ہوئی، میں بوڑھا اور بے حد بوڑھا جس کی ہڈیوں میں اب تو گودا بھی نہیں رہا، خشک ٹہنی جیسا ہو گیا ہوں، گھر والی بھی بڑھیا پھوس ہو گئی ہے، پھر ہمارے ہاں اولاد کیسے ہو گی؟ غرض رب العالمین سے کیفیت بوجہ تعجب و خوشی دریافت کی۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں تمام سنتوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر عصر میں پڑھتے تھے یا نہیں؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس لفظ کو «عَتِیاً» پڑھتے تھے یا «عَسِیاً» ۔ [سنن ابوداود:809،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

فرشتے نے جواب دیا کہ یہ تو وعدہ ہو چکا، اسی حالت میں اسی بیوی سے تمہارے ہاں لڑکا ہو گا۔ اللہ کے ذمے یہ کام مشکل نہیں۔ اس سے زیادہ تعجب والا اور اس سے بڑی قدرت والا کام تو تم خود دیکھ چکے ہو اور وہ خود تمہارا وجود ہے، جو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنا دیا۔ پس جو تمہاری پیدائش پر قادر تھا، وہ تمہارے ہاں اولاد دینے پر بھی قادر ہے۔‏‏‏‏

جیسے فرمان ہے «هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا» [76-الإنسان:1] ‏‏‏‏ یعنی ” یقیناً انسان پر اس کے زمانے کا ایسا وقت بھی گزرا ہے، جس میں وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا “۔
5030



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.