[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ [103] وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ [104] یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ [105] یہ ان کی جزا جہنم ہے، اس وجہ سے کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کو مذاق بنایا۔ [106] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیاده خسارے میں کون ہیں؟ [103] وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں [104] یہی وه لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا، اس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے [105] حال یہ ہے کہ ان کا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کو مذاق میں اڑایا [106]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں [103] وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں [104] یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے [105] یہ ان کی سزا ہے (یعنی) جہنم۔ اس لئے کہ انہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں اور ہمارے پیغمبروں کی ہنسی اُڑائی [106]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 103، 104، 105، 106،
عبادت واطاعت کا طریقہ ٭٭
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے ان کے صاحبزادے مصعب رحمہ اللہ نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہود و نصاری ہیں۔ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا۔ پس سعد رضی اللہ عنہما خارجیوں کو فاسق کہتے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں، اس سے مراد خارجی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود ونصاری وغیرہ کفار کو شامل ہے، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے۔ جو بھی اللہ کی عبادت و اطاعت اس طریقے سے بجا لائے جو طریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہو کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے، میرے نیک اعمال اللہ کے پسندیدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے۔ اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے۔ آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکے میں یہود ونصاری مخاطب نہ تھے۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں۔
5004
جیسے سورۃ الغاشیہ میں ہے کہ «وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً»[ 88-الغاشیہ: 2-4 ] قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے، آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے۔ اور آیت میں ہے «وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاءً مَّنْثُوْرًا»[ 25- الفرقان: 23 ] ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بے کار کر دیا۔ اور آیت میں ہے «وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا»[ 24-النور: 39 ] ، کافروں کے اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند بھی پانی کی نہیں پاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کی پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں، اس لیے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہو گئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مغضوب ہو گئے۔ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔ اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور مانے ہی نہیں۔ ان کا نیکی کا پلڑا بالکل خالی رہے گا۔
بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا۔ پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کر لو «فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا»[ 18- الكهف: 105 ] ۔ [صحیح بخاری:4729]
5005
ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے، بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہو گا۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23399] بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو آپ نے بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہو گا۔ [مسند بزار،2956:ضعیف] مرفوع حدیث کی طرح کعب کا قول بھی مروی ہے۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا، اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا۔