تفسير ابن كثير



سورۃ الكهف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا[97] قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا[98] وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا[99]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر نہ ان میں یہ طاقت رہی کہ اس پر چڑھ جائیں اور نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے۔ [97] کہا یہ میرے رب کی طرف سے ایک رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ آگیا تو وہ اسے زمین کے برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ ہمیشہ سے سچا ہے۔ [98] اور اس دن ہم ان کے بعض کو چھوڑیں گے کہ بعض میں ریلا مارتے ہوں گے اور صور میں پھونکا جائے گا تو ہم ان کو جمع کریں گے، پوری طرح جمع کرنا۔ [99]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ ان میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے [97] کہا یہ صرف میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعده آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا، بیشک میرے رب کا وعده سچا اور حق ہے [98] اس دن ہم انہیں آپس میں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور صور پھونک دیا جائے گا پس سب کو اکٹھا کرکے ہم جمع کر لیں گے [99]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں نقب لگا سکیں [97] بولا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے۔ جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا تو اس کو (ڈھا کر) ہموار کردے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے [98] (اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے [99]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 97، 98، 99،

دیوار بنا دی گئی ٭٭

اس دیوار پر نہ تو چڑھنے کی طاقت یاجوج ماجوج کو ہے، نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے ہیں کہ وہاں سے نکل آئیں۔ چونکہ چڑھنا بہ نسبت توڑنے کے زیادہ آسان ہے، اسی لیے چڑھنے میں «مَااسْطَاعُوْا» کا لفظ لائے اور توڑنے میں «مَااسْـتَـطَاعُوْا» کا لفظ لائے۔ غرض نہ تو وہ چڑھ کر آ سکتے ہیں نہ سوراخ کر کے۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہر روز یاجوج ماجوج اس دیوار کو کھودتے ہیں یہاں تک کہ قریب ہوتا ہے کہ سورج کی شعاعیں ان کو نظر آ جائیں، چونکہ دن گزر جاتا ہے اس لیے ان کے سردار کا حکم ہوتا ہے کہ اب بس کرو کل آ کر توڑ دیں گے لیکن جب وہ دوسرے دن آتے ہیں تو اسے پہلے دن سے زیادہ مضبوط پاتے ہیں۔ قیامت کے قریب جب ان کا نکلنا اللہ کو منظور ہو گا تو یہ کھودتے ہوئے جب دیوار کو چھلکے جیسی کر دیں گے تو ان کا سردار کہے گا، اب چھوڑ دو کل ان شاءاللہ اسے توڑ ڈالیں گے، پس ان شاءاللہ کہہ لینے کی برکت سے دوسرے دن جب وہ آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ویسی ہی پائیں گے۔ فوراً گرا دیں گے اور باہر نکل پڑیں گے۔ تمام پانی چاٹ جائیں گے، لوگ تنگ آ کر قلعوں میں پناہ گزیں ہو جائیں گے۔ یہ اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے اور مثل خون آلود تیروں کے ان کی طرف لوٹائے جائیں گے تو یہ کہیں گے، زمین والے سب دب گئے آسمان والوں پر بھی ہم غالب آ گئے۔ اب ان کی گردنوں میں گلٹیاں نکلیں گی اور سب کے سب بحکم الٰہی اسی وبا سے ہلاک کر دئے جائیں گے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ زمین کے جانوروں کی خوراک ان کے جسم و خون ہوں گے جس سے وہ خوب موٹے تازے ہو جائیں گے۔ [مسند احمد:510/2:صحیح] ‏‏‏‏

ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ بھی اسے لائے ہیں اور فرمایا ہے یہ روایت غریب ہے سوائے اس سند کے مشہور نہیں۔ اس کی سند بہت قوی ہے لیکن اس کا متن نکارت سے خالی نہیں۔ اس لیے کہ آیت کے ظاہری الفاظ صاف ہیں کہ نہ وہ چڑھ سکتے ہیں نہ سوراخ کر سکتے ہیں کیونکہ دیوار نہایت مضبوط، بہت پختہ اور سخت ہے۔
4994

کعب احبار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اسے چاٹتے ہیں اور بالکل چھلکے جیسی کر دیتے ہیں، پھر کہتے ہیں چلو کل توڑ دیں گے۔ دوسرے دن جو آتے ہیں تو جیسی اصل میں تھی ویسی ہی پاتے ہیں۔ آخری دن وہ بہ الہام الٰہی جاتے وقت ان شاءاللہ کہیں گے، دوسرے دن جو آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے، ویسی ہی پائیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ انہی کعب سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی ہو پھر بیان کی ہو اور کسی راوی کو وہم ہو گیا ہو اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھ کر اسے مرفوعاً بیان کر دیا ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» یہ جو ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جو مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے، چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور فرماتے جاتے تھے۔ «لا الہ الا اللہ» عرب کی خرابی کا وقت قریب آ گیا، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا پھر آپ نے اپنی انگلیوں سے حلقہ بنا کر دکھایا۔ اس پر ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم بھلے لوگوں کی موجودگی میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب خبیث لوگوں کی کثرت ہو جائے۔ [صحیح بخاری:3346] ‏‏‏‏ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے۔ ہاں بخاری شریف میں راویوں کے ذکر میں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں۔ مسلم میں ہے اور بھی اس کی سند میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بہت ہی کم پائی گئی ہیں۔
4995

مثلا زہری کی روایت عروہ سے حالانکہ یہ دونوں بزرگ تابعی ہیں اور چار عورتوں کا آپس میں ایک دوسرے سے روایت کرنا پھر چاروں عورتیں صحابیہ رضی اللہ عنہن۔ پھر ان میں بھی دو حضور علیہ السلام کی بیویوں کی لڑکیاں اور دو آپ کی بیویاں رضی اللہ عنہن۔ بزار میں یہی روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ [ مترجم کہتا ہے اس تکلف کی اور ان مرفوع احادیث کے متعلق اس قول کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم آیت قرآنی اور ان صحیح مرفوع احادیث کے درمیان بہت آسانی سے یہ تطبیق دے سکتے ہیں کہ کوئی ایسا سوراخ نہیں کر سکتے جس میں سے نکل آئیں۔ پتلی کر دینا یا حلقے کے برابر سوراخ کر دینا اور بات ہے، جو مقصود ذوالقرنین کا اس دیوار کے بنانے سے تھا، وہ بفضلہ حاصل ہے کہ نہ وہ اوپر سے اتر سکیں نہ توڑ کر یا سوراخ کر کے نکل سکیں اور اسی کی خبر آیت میں ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] ‏‏‏‏

اس دیوار کو بنا کر ذوالقرنین اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور اللہ کا شکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ لوگو یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے ان شریروں کی شرارت سے مخلوق کو اب امن دے دیا، ہاں جب اللہ کا وعدہ آ جائے گا تو اس کا ڈھیر ہو جائے گا۔ یہ زمین دوز ہو جائے گی۔ مضبوطی کچھ کام نہ آئے گی۔ اونٹنی کا کوہان جب اس کی پیٹھ سے ملا ہوا ہو تو عرب میں اسے «ناقتہ دکاء» کہتے ہیں۔ قرآن میں اور جگہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کے سامنے پہاڑ پر رب نے تجلی کی تو وہ پہاڑ زمین دوز ہو گیا وہاں بھی لفظ «جعلہ دکاء» ہے۔ پس قریب بہ قیامت یہ دیوار پاش پاش ہو جائے گی اور ان کے نکلنے کا راستہ بن جائے گا۔ اللہ کے وعدے اٹل ہیں، قیامت کا آنا یقینی ہے۔ اس دیوار کے ٹوٹتے ہی یہ لوگ نکل پڑیں گے اور لوگوں میں گھس جائیں گے، اپنوں بیگانوں کی تمیز اٹھ جائے گی۔ یہ واقعہ دجال کے آجانے کے بعد قیامت کے قیام سے پہلے ہو گا۔ اس کا پورا بیان آیت «اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ» [ 21- الأنبياء: 96 ] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ۔
4996

جب صور پھونکا جاے گا ٭٭

اس کے بعد صور پھونکا جائے گا اور سب جمع ہو جائیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان جن سب خلط ملط ہو جائیں گے۔ بنی خزارہ کے ایک شیخ کا بیان ابن جریر میں ہے کہ جب جن انسان آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے، اس وقت ابلیس کہے گا کہ میں جاتا ہوں، معلوم کرتا ہوں کہ یہ کیا بات ہے؟ مشرق کی طرف بھاگے گا لیکن وہاں فرشتوں کی جماعتوں کو دیکھ کر رک جائے گا اور لوٹ کر مغرب کو پہنچے گا، وہاں بھی یہی رنگ دیکھ کر دائیں بائیں بھاگے گا لیکن چاروں طرف سے فرشتوں کا محاصرہ دیکھ کر ناامید ہو کر چیخ پکار شروع کر دے گا۔ اچانک اسے ایک چھوٹا سا راستہ دکھائی دے گا، اپنی ساری ذریات کو لے کر اس میں چل پڑے گا آگے جا کر دیکھے گا کہ دوزخ بھڑک رہی ہے۔ ایک دروغہ جہنم اس سے کہے گا کہ اے موذی خبیث! کیا اللہ نے تیرا مرتبہ نہیں بڑھایا تھا؟ کیا تو جنتیوں میں نہ تھا؟ یہ کہے گا آج ڈانٹ ڈپٹ کیوں کرتے ہو؟ آج تو چھٹکارے کا راستہ بتاؤ، میں عبادت الٰہی کے لیے تیار ہوں، اگر حکم ہو تو اتنی اور ایسی عبادت کروں کہ روئے زمین پر کسی نے نہ کی ہو۔ داروغہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ تیرے لیے ایک فریِضہ مقرر کرتا ہے، وہ خوش ہو کر کہے گا میں اس کے حکم کی بجا آوری کے لیے پوری مستعدی سے موجود ہوں۔ حکم ہو گا کہ یہی کہ تم سب جہنم میں چلے جاؤ۔ اب یہ خبیث ہکا بکا رہ جائے گا۔ وہیں فرشتہ اپنے پر سے اسے اور اس کی تمام ذریت کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دے گا۔ جہنم انہیں لے کر آ دبوچے گی اور ایک مرتبہ تو وہ جلائے گی کہ تمام مقرب فرشتے اور تمام نبی رسول گھٹنوں کے بل اللہ کے سامنے عاجزی میں گر پڑیں گے۔

طبرانی میں ہے کہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، یاجوج ماجوج آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اگر وہ چھوڑ دئے جائیں تو دنیا کی معاش میں فساد ڈال دیں، ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے، پھر ان کے سوا تین امتیں اور ہیں تاویل، مارس اور منسک۔ [طبرانی اوسط:8598:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر اور ضعیف ہے۔
4997

نسائی میں ہے کہ ان کی بیویاں بچے ہیں، ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے۔ پھر فرمایا صور پھونک دیا جائے گا جیسے حدیث میں ہے کہ وہ ایک قرن ہے جس میں صور پھونک دیا جائے گا، [سنن ابوداود:4732،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ پھونکنے والے اسرافیل علیہ السلام ہوں گے۔ جیسے کہ لمبی حدیث بیان ہو چکی ہے۔ اور بھی بہت سی احادیث سے اس کا ثبوت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں کیسے چین اور آرام سے بیٹھوں؟ صور والا فرشتہ صور کو منہ سے لگائے ہوئے پیشانی جھکائے ہوئے کان لگائے ہوئے منتظر بیٹھا ہے کہ کب حکم ہو اور میں پھونک دوں۔ لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہم کیا کہیں؟ فرمایا «حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِيلُ، عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا» ۔ [سنن ترمذي:2431،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ پھر فرماتا ہے، ہم سب کو حساب کے لیے جمع کریں گے۔ سب کا حشر ہمارے سامنے ہو گا جیسے سورۃ الواقعہ میں ہے کہ «قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ» [ 56-الواقعہ: 49، 50 ] ‏‏‏‏ اگلے پچھلے سب کے سب مقررہ دن کے وقت اکٹھے کئے جائیں گے اور آیت میں ہے «وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا» [ 18- الكهف: 47 ] ‏‏‏‏ ہم سب کو جمع کریں گے۔ ایک بھی تو باقی نہ بچے گا۔
4998



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.