[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] رہی کشتی تو وہ چند مسکینوں کی تھی، جو دریا میں کام کرتے تھے، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی چھین کر لے لیتا تھا۔ [79] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا اراده کر لیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاه تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا [79]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ) کرتے تھے۔ اور ان کے سامنے (کی طرف) ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں (تاکہ وہ اسے غصب نہ کرسکے) [79]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 79،
اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت ٭٭
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے خضر علیہ السلام کو مطلع کر دیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا، وہ انہوں نے کیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا اس لیے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہٰذا خضر علیہ السلام نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا۔ اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا، توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔