تفسير ابن كثير



سورۃ الكهف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا[47] وَعُرِضُوا عَلَى رَبِّكَ صَفًّا لَقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّنْ نَجْعَلَ لَكُمْ مَوْعِدًا[48] وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا[49]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور ہم انھیں اکٹھا کریں گے تو ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ [47] اور وہ تیرے رب کے سامنے صفیں باندھے ہوئے پیش کیے جائیں گے، بلاشبہ یقینا تم ہمارے پاس اسی طرح آئے ہو جیسے ہم نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا، بلکہ تم نے گمان کیا تھا کہ ہم تمھارے لیے کبھی وعدے کا کوئی وقت مقرر نہیں کریں گے۔ [48] اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی! اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے، اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیںگے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ [49]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے [47] اور سب کے سب تیرے رب کے سامنے صف بستہ حاضر کئے جائیں گے۔ یقیناً تم ہمارے پاس اسی طرح آئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا لیکن تم تو اسی خیال میں رہے کہ ہم ہرگز تمہارے لئے کوئی وعدے کا وقت مقرر کریں گے بھی نہیں [48] اور نامہٴ اعمال سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ﻇلم وستم نہ کرے گا [49]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو گے اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے [47] اور سب تمہارے پروردگار کے سامنے صف باندھ کر لائے جائیں گے (تو ہم ان سے کہیں گے کہ) جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح آج) تم ہمارے سامنے آئے لیکن تم نے تو یہ خیال کر رکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے (قیامت کا) کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا [48] اور (عملوں کی) کتاب (کھول کر) رکھی جائے گی تو تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو۔ (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھا ہے۔ اور جو عمل کئے ہوں گے سب کو حاضر پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا [49]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 47، 48، 49،

سب کے سب میدان حشر میں ٭٭

اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے، ان کا ذکر کر رہا ہے کہ «يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا» [ 52-الطور: 9، 10 ] ‏‏‏‏ آسمان پھٹ جائے گا، «وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ» [ 27-النمل: 88 ] ‏‏‏‏ پہاڑ اڑ جائیں گے گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے۔ «وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ» [ 101-القارعة: 5 ] ‏‏‏‏ آخر روئی کے گالوں کی طرح ہو جائیں گے، «وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرَىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا» [ 20-طٰہ: 105-107 ] ‏‏‏‏ زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی، نہ اس میں کوئی مکان ہو گا نہ چھپر۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہو گی۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا، کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہو گی۔ کوئی درخت، پتھر، گھاس پھوس دکھائی نہ دے گا۔

«قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ» [ 56-الواقعة: 50، 49 ] ‏‏‏‏ تمام اول و آخر کے لوگ جمع ہوں گے، کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہو گا۔ تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے، «ذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ» [ 11-ھود: 103 ] ‏‏‏‏ اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے۔ «يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» [ 78-النبإ: 38 ] ‏‏‏‏ تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے، روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے، کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہو گی بجز ان کے جنہیں اللہ رحمان اجازت دے اور وہ بات بھی معقول کہیں۔ پس یا تو سب کی ایک ہی صف ہو گی یا کئی صفوں میں ہوں گے۔ جیسے ارشاد قرآن ہے «وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا» [ 89-الفجر: 22 ] ‏‏‏‏ تیرا رب آئے گا اور فرشتے صف بہ صف۔ وہاں منکرین قیامت کو سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ ہو گی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا، اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کر لیا، اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے۔
4913

نامہ اعمال سامنے کر دیئے جائیں گے جس میں ہر چھوٹا بڑا، کھلا چھپا عمل لکھا ہوا ہو گا۔ اپنی بد اعمالیوں کو دیکھ دیکھ کر گناہ گار خوف و حیرت زدہ ہو جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بھی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو، چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر ہم چلے، ایک میدان میں منزل کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جاؤ جسے کوئی لکڑی، کوئی کوڑا، کوئی گھاس پھوس مل جائے لے آؤ۔ ہم سب ادھر ادھر ہو گئے چپٹیاں، چھال، لکڑی، پتے، کانٹے، درخت، جھاڑ، جھنکار جو ملا لے آئے۔ ڈھیر لگ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھ رہے ہو؟ اسی طرح گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے، اللہ سے ڈرتے رہو، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچو کیونکہ سب لکھے جا رہے ہیں اور شمار کئے جا رہے ہیں۔ [طبرانی کبیر:5485:ضعیف] ‏‏‏‏ جو خیر و شر، بھلائی برائی جس کسی نے کی ہو گی، اسے موجود پائے گا جیسے آیت «يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا» [ 3- آل عمران: 30 ] ‏‏‏‏ اور آیت «يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ» [ 75- القيامة: 13 ] ‏‏‏‏ اور آیت «يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاىِٕرُ» [ 86- الطارق: 9 ] ‏‏‏‏ الخ میں ہے، تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہو جائیں گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، ہر بدعہد کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اس کی بدعہدی کے مطابق جس سے اس کی پہچان ہو جائے۔ [صحیح بخاری:3187] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے کہ یہ جھنڈا اس کی رانوں کے پاس ہو گا اور اعلان ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے۔ [صحیح بخاری:3186] ‏‏‏‏ تیرا رب ایسا نہیں کہ مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرے، ہاں البتہ درگزر کرنا، معاف فرما دینا، عفو کرنا، یہ اس کی صفت ہے۔ ہاں بدکاروں کو اپنی قدرت و حکمت اور عدل و انصاف سے وہ سزا بھی دیتا ہے۔ جہنم گنہگاروں اور نافرمانوں سے بھر جائے پھر کافروں اور مشرکوں کے سوا اور مومن گنہگار چھوٹ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا، نیکیوں کو بڑھاتا ہے، گناہوں کو برابر ہی رکھتا ہے۔ عدل کا ترازو اس دن سامنے ہو گا کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہو گی، الخ۔
4914

مسند احمد میں ہے، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، مجھے روایت پہنچی کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ میں نے اس حدیث کو خاص ان سے سننے کے لیے ایک اونٹ خریدا، سامان کس کر سفر کیا، مہینہ بھر کے بعد شام میں ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما ہیں۔ میں نے دربان سے کہا جاؤ خبر کرو کہ جابر رضی اللہ عنہ دروازے پر ہے، انہوں نے پوچھا کیا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما؟ میں نے کہا جی ہاں۔ یہ سنتے ہی جلدی کے مارے چادر سنبھالتے ہوئے جھٹ سے باہر آ گئے اور مجھے لپٹ گئے۔ معانقہ سے فارغ ہو کر میں نے کہا، مجھے یہ روایت پہنچی کہ آپ نے قصاص کے بارے میں کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں نے چاہا کہ خود آپ سے میں وہ حدیث سن لوں، اس لیے یہاں آیا اور سنتے ہی سفر شروع کر دیا، اس خوف سے کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے مر نہ جاؤں یا آپ کو موت نہ آ جائے۔ اب آپ سنائیے وہ حدیث کیا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن اپنے تمام بندوں کا اپنے سامنے حشر کرے گا، ننگے بدن، بے ختنہ، بےسر و سامان۔ پھر انہیں ندا کرے گا جسے دور نزدیک والے سب یکساں سنیں گے، فرمائے گا کہ میں مالک ہوں، میں بدلے دلوانے والا ہوں۔ کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہ جائے گا جب تک اس کا جو حق کسی جنتی کے ذمہ ہو میں نہ دلوا دوں اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہو سکتا ہے جب تک اس کا حق جو جہنمی پر ہے میں نہ دلوا دوں گو ایک تھپڑ ہی ہو۔ ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ حق کیسے دلوائے جائیں گے حالانکہ ہم سب تو وہاں ننگے پاؤں، ننگے بدن، بے مال و اسباب ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس دن حق نیکیوں اور برائیوں سے ادا کئے جائیں گے۔ [مسند احمد:495/3:حسن] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ دار بکری نے مارا ہے تو اس سے بھی اس کو بدلہ دلوایا جائے گا۔ [صحیح مسلم:2582 [21-الأنبياء:47] ‏‏‏‏] ‏‏‏‏ اس کے اور بھی بہت سے شواہد ہیں جنہیں ہم نے بالتفصیل آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا» [ 21- الأنبياء: 47 ] ‏‏‏‏ الخ کی تفسیر میں اور آیت «اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ» [ 6- الانعام: 38 ] ‏‏‏‏ الخ کی تفسیر میں بیان کئے ہیں۔
4915



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.