[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کو یاد کر جب تو بھول جائے اور کہہ امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے قریب تر بھلائی کی ہدایت دے گا۔ [24] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] مگر ساتھ ہی انشاءاللہ کہہ لینا۔ اور جب بھی بھولے، اپنے پروردگار کی یاد کر لیا کرنا اور کہتے رہنا کہ مجھے پوری امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیاده ہدایت کے قریب کی بات کی رہبری کرے [24]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مگر (انشاء الله کہہ کر یعنی اگر) خدا چاہے تو (کردوں گا) اور جب خدا کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو۔ اور کہہ دو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے [24]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 24،
ان شاء اللہ کہنے کا حکم ٭٭
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ختم المرسلین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کل کروں گا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان شاءاللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہو گا؟ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ علام الغیوب اور تمام چیزوں پر قادر صرف وہی ہے۔ اس کی مدد طلب کر لیا کرو۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں۔ ایک روایت میں ہے سو تھیں۔ ایک میں ہے بہتر [ ٧٢ ] تھیں۔ تو آپ علیہ السلام نے ایک بار کہا کہ آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا ہر عورت کو بچہ ہو گا تو سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ اس وقت فرشتے نے کہا ان شاءاللہ کہہ مگر سلیمان علیہ السلام نے نہ کہا۔ اپنے ارادے کے مطابق وہ سب بیویوں کے پاس گئے، مگر سوائے ایک بیوی کے کسی کے ہاں بچہ نہ ہوا اور جس ایک کے ہاں ہوا بھی، وہ بھی آدھے جسم کا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر وہ ان شاءاللہ کہہ لیتے تو یہ ارادہ ان کا پورا ہوتا اور ان کی حاجت روائی ہو جاتی۔ اور یہ سب بچے جوان ہو کر راہ حق کے مجاہد بنتے۔ [صحیح بخاری:5242]
4877
اسی سورت کی تفسیر کے شروع میں اس آیت کا شان نزول بیان ہو چکا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا۔ ان شاءاللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی۔ اس حدیث کو پوری طرح ہم نے اس سورت کی تفسیر کے شروع میں بیان کر دیا ہے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر، یعنی ان شاءاللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو حلف کھائے کہ اسے پھر بھی ان شاءاللہ کہنے کا حق ہے گو سال بھر گزر چکا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کلام میں یا قسم میں ان شاءاللہ کہنا بھول گیا تو جب بھی یاد آئے کہہ لے، گو کتنی مدت گزر چکی ہو اور گو اس کا خلاف بھی ہو چکا ہو۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں رہے گا اور اسے قسم توڑنے کا اختیار ہے۔ یہی مطلب اس قول کا امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے اور یہی بالکل ٹھیک ہے۔ اسی پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کا کلام محمول کیا جا سکتا ہے، ان سے اور حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مراد ان شاءاللہ کہنا بھول جانا ہے۔ اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے،
دوسرا کوئی تو اپنی قسم کے ساتھ ہی متصل طور پر ان شاءاللہ کہے تو معتبر ہے۔ یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جب کوئی بات بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت ہے اور ذکر الٰہی یاد کا ذریعہ ہے۔ پھر فرمایا کہ تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کیا جائے کہ تجھے اس کا علم نہ ہو تو تو اللہ تعالیٰ سے دریافت کر لیا کر اور اس کی طرف توجہ کر تاکہ وہ تجھے ٹھیک بات اور ہدایت والی راہ بتا اور دکھا دے۔ اور بھی اقوال اس بارے میں مروی ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔