فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا[6] إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا[7] وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا[8]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کر لینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ [6] بے شک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اس کے لیے زینت بنایا ہے، تاکہ ہم انھیں آزمائیں ان میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔ [7] اور بلاشبہ ہم جو کچھ اس پر ہے، اسے ضرور ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ [8]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟ [6] روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعﺚ بنایا ہے کہ ہم انہیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال واﻻ ہے [7] اس پر جو کچھ ہے ہم اسے ایک ہموار صاف میدان کر ڈالنے والے ہیں [8]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے پیغمبر) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم کے ان پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے [6] جو چیز زمین پر ہے ہم نے اس کو زمین کے لئے آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے [7] اور جو چیز زمین پر ہے ہم اس کو (نابود کرکے) بنجر میدان کردیں گے [8]۔
........................................
مشرکین جو آپ سے دور بھاگتے تھے، ایمان نہ لاتے تھے، اس پر جو رنج و افسوس آپ کو ہوتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی کر رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ «فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ» [ 35-فاطر: 8 ] ان پر اتنا رنج نہ کرو، اور جگہ ہے «وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ» [ 16-النحل: 127 ] ان پر اتنے غمگین نہ ہو، اور جگہ ہے «لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ» [ 26-الشعراء: 3 ] ان کے ایمان نہ لانے سے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر۔ یہاں بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں تو تو اپنی جان کو روگ نہ لگا لے، اس قدر غم و غصہ، رنج و افسوس نہ کر، نہ گھبرا نہ دل تنگ کر اپنا کام کئے جا۔ تبلیغ میں کوتاہی نہ کر۔ راہ یافتہ اپنا بھلا کریں گے۔ گمراہ اپنا برا کریں گے۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے۔ پھر فرماتا ہے دنیا فانی ہے، اس کی زینت زوال والی ہے، آخرت باقی ہے، اس کی نعمت دوامی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے، اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ پس دنیا سے اور عورتوں سے بچو، بنو اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا۔ [صحیح مسلم:2742]
یہ دنیا ختم ہونے والی اور خراب ہونے والی ہے، اجڑنے والی اور غارت ہونے والی ہے، زمین ہموار صاف رہ جائے گی جس پر کسی قسم کی روئیدگی بھی نہ ہو گی۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ» [ 32-السجدة: 27 ] کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم غیر آباد بنجر زمین کی طرف پانی کو لے چلتے ہیں اور اس میں سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جسے وہ خود کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی۔ کیا پھر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ زمین اور زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔ پس تو کچھ بھی ان سے سنے، انہیں کیسے ہی حال میں دیکھے، مطلق افسوس اور رنج نہ کر۔