[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے اللہ کو پکارو، یا رحمان کو پکارو، تم جس کو بھی پکارو گے سو یہ بہترین نام اسی کے ہیں اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔ [110] اور کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے نہ کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کاکوئی شریک ہے اور نہ عاجز ہوجانے کی وجہ سے کوئی اس کا مدد گار ہے اور اس کی بڑائی بیان کر، خوب بڑائی بیان کرنا۔ [111] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہہ دیجئیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے [110] اور یہ کہہ دیجیئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اوﻻد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک وساجھی رکھتا ہے اور نہ وه کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا ره [111]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہہ دو کہ تم (خدا کو) الله (کے نام سے) پکارو یا رحمٰن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب اچھے نام ہیں۔ اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو [110] اور کہو کہ سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز وناتواں ہے کوئی اس کا مددگار ہے اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو [111]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 110، 111،
رحمن یا رحیم ؟ ٭٭
کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے، اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لیے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بس، ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو۔
سورۃ الحشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں۔ «هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ * هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ * هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» [59-الحشر:22-24]
ایک مشرک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے کی حالت میں «یا رحمن یا رحیم» سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں، دو معبودوں کو پکارتے ہیں، اس پر یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22802:مرسل]
پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو۔ اس آیت کے نزول کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں پوشیدہ تھے، جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو، اللہ کو، رسول کو گالیاں دیتے۔ اس لیے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں۔ ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو۔ [صحیح بخاری:4722]
پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی، اب جس طرح چاہیں پڑھیں۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو ان کے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی۔ اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کر لیں تو وہ جو چھپے کے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم، اس لیے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22830]
4833
الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باآواز بلند قرأت پڑھا کرتے تھے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا، بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22835:مرسل]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [صحیح بخاری:4323]
یہی قول مجاہد، سعید بن جبیر، ابو عیاض، مکحول، عروہ بن زبیر رحمہ اللہ علیہم کا بھی ہے۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری۔
4834
ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو۔ یہ بھی نہ کرو کہ علانیہ تو عمدہ کرکے پڑھو اور خفیہ برا کرکے پڑھو۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقت سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا، پھر اس کے درمیان کا راستہ جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون فرمایا ہے۔
اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے۔ اس کی اولاد نہیں، اس کا شریک نہیں، وہ واحد ہے، احد ہے، صمد ہے، نہ اس کے ماں باپ، نہ اولاد، نہ اس کی جنس کا کوئی اور، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے حاجت ہو۔
بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے، سب کا مدبر مقدر وہی ہے، اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے، وہ وحدہ لا شریک لہ ہے، نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے۔ تو ہر وقت اس کی عظمت، جلالت، کبریائی، بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تہمتیں اس پر باندھتے ہیں، تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی بڑائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ۔
یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ مشرکین کہتے تھے «لَبَّيْكَ لَا شَرِيك لَك إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَك تَمْلِكهُ وَمَا مَلَكَ» یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں، اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں، تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہ اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کر سکتا۔
اس پر یہ آیت «وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا»[17-الإسراء:111] اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کر دی گئی۔
4835
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22852:مرسل و ضعیف]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا نام آیت «العز» یعنی عزت والی آیت رکھا ہے۔ [مسند احمد439/3-440:ضعیف]
بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے، اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہو سکتی «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے، اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھ وظیفہ بتا دوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائیے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا۔ اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پا سکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جانے دیجئیے آپ مجھے بتلا دیئجے۔ آپ نے فرمایا، (سیدنا) ابوہریرہ (رضی اللہ عنہا) یوں کہو «تَوَكَّلْت عَلَى الْحَيّ الَّذِي لَا يَمُوت الْحَمْد لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيك فِي الْمُلْك وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيّ مِنْ الذُّلّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا» میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا، چند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور پوچھا (سیدنا) ابوہریرہ (رضی اللہ عنہا) یہ کیا ہے؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے۔ [مسند ابویعلیٰ:6671:ضعیف]
اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے۔ اسے حافظ ابو یعلیٰ اپنی کتاب میں لائے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔