تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا[37] كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا[38]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک تو نہ کبھی زمین کو پھاڑے گا اور نہ کبھی لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچے گا۔ [37] یہ سب کام، ان کا برا تیرے رب کے ہاں ہمیشہ سے ناپسندیدہ ہے۔ [38]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے [37] ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک (سخت) ناپسند ہے [38]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور زمین پر اکڑ کر (اور تن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں (کی چوٹی) تک پہنچ جائے گا [37] ان سب (عادتوں) کی برائی تیرے پروردگار کے نزدیک بہت ناپسند ہے [38]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 37، 38،

تکبر کے ساتھ چلنے کی ممانعت ٭٭

اکڑ کر، اترا کر، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے۔ پھر اسے نیچا دکھانے کے لیے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑ کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے۔

جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جارہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جارہا ہے۔ [صحیح بخاری:5789] ‏‏‏‏

قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا۔ ہاں تواضع، نرمی، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں۔ [صحیح مسلم:2659] ‏‏‏‏

امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں کہ ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھا ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قباء بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا۔
4695

حسن رحمہ اللہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا، بل کھایا، رخساروں پھولا، اپنے ڈنڈ بازو دیکھتا، اپنے تیئں تولتا، سمتوں کے ذکر و شکر کو بھولا، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے، اللہ کے حق کو توڑا، دیوانوں کی چال چلتا، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے۔

ابن الاہیم نے سن لیا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا آیت «وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا» ‏‏‏‏ [17-الإسراء:37] ‏‏‏‏ [ابن ابی دنیا:237] ‏‏‏‏

عابد بختری رحمہ اللہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑتے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا جو اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں۔ خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگو اکڑ اکڑ کر چلنا چھوڑو اس لیے کہ انسان کے ہاتھ بھی اس کے باقی جسم میں سے ہیں۔

ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ جب میری امت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا۔ [سنن ترمذي:2261،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

«سَيِّئُهُ» کی دوسری قرأت «سيئه» ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام۔ اور «سيئه» ‏‏‏‏کی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ آیت «وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ» [17-الإسراء:23] ‏‏‏‏ سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے۔
4696



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.