تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا[16]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں حکم نہیں مانتے تو اس پر بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اسے برباد کر دیتے ہیں، بری طرح برباد کرنا۔ [16]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا اراده کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وه اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ﺛابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباه وبرباد کردیتے ہیں [16]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں کو (فواحش پر) مامور کردیا تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے۔ پھر اس پر (عذاب کا) حکم ثابت ہوگیا۔ اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا [16]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 16،

تقدیر اور ہمارے اعمال ٭٭

مشہور قرأت تو «أَمَرْنَا» ہے اس امر سے مراد تقدیری امر ہے جیسے اور آیت میں ہے: «أَتَاهَآ أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَارًا» ‏‏‏‏ [10-يونس:24] ‏‏‏‏ ” یعنی وہاں ہمارہ مقرر کردہ امر آجاتا ہے، رات کو یا دن کو۔ “

یاد رہے کہ اللہ برائیوں کا حکم نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ فحش کاریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے مستحق عذاب ہو جاتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی اطاعت کے احکام کرتے ہیں اور برائیوں میں لگ جاتے ہیں پھر ہمارا سزا کا قول ان پر راست آ جاتا ہے جن کی قرأت «أَمُرْنَا» ‏‏‏‏ہے وہ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہاں کے سردار ہم بدکاروں کو بنا دیتے ہیں وہ وہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ عذاب الٰہی انہیں اس بستی سمیت تہس نہس کر دیتا۔

جیسے فرمان ہے: «وَكَذلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَـبِرَ مُجْرِمِيهَا» [6-الأنعام:123] ‏‏‏‏ ” اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا۔ “

سیدنا ابن عباسؓ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ہم ان کے دشمن بڑھا دیتے ہیں وہاں سرکشوں کی زیادتی کر دیتے ہیں۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے بہترین مال جانور ہے جو زیادہ بچے دینے والا ہو یا راستہ ہے جو کھجور کے درختوں سے گھرا ہوا ہو۔ [مسند احمد:468/3:ضعیف] ‏‏‏‏

جیسے آپ کا قول ہے گناہ والیاں نہ کہ اجر پانے والیاں۔ [سنن ابن ماجه:1578،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
4666



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.