تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِي وَكِيلًا[2] ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا[3]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ تم میرے سوا کوئی کارساز نہ پکڑو۔ [2] اے ان لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا! بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔ [3]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا [2] اے ان لوگوں کی اوﻻد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کردیا تھا، وه ہمارا بڑا ہی شکرگزار بنده تھا [3]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لئے رہنما مقرر کیا تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہرانا [2] اے اُن لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا۔ بےشک نوح (ہمارے) شکرگزار بندے تھے [3]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 2، 3،

طوفان نوح کے بعد ٭٭

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموماً یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام تورات ہے۔ وہ کتاب بنی اسرائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے۔

پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہیئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے۔ مروی ہے کہ نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے اور پہنتے غرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لیے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا۔

مسند احمد وغیرہ میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ [صحیح مسلم:2734] ‏‏‏‏

یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ جب لوگ طلب شفاعت کے لیے نوح نبی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے الخ۔ [صحیح بخاری:3340] ‏‏‏‏
4627



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.