[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ [1] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ تمام پاکی اس کے لیے ہے وه برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں [1]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس کے لیے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے [1]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1،
عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا ٭٭
اللہ تعالیٰ قیامت کی نزدیکی کی خبر دے رہا ہے اور گویا کہ وہ قائم ہو چکی۔ اس لیے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ»[21-الأنبياء:1] ” لوگوں کا حساب قریب آ چکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں “۔
اور آیت میں ہے «اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ»[54-القمر:1] ” قیامت آ چکی، چاند پھٹ گیا “۔ پھر فرمایا ” اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو “۔ «ہ» کی ضمیر کا مرجع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں۔
جیسے اور آیت میں ہے «وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ»[29-العنکبوت:54-53] ” یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آ جاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی ناگہاں ان کی غفلت میں۔ یہ عذابوں کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے “۔
ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ ”اللہ فرائض اور حدود نازل ہوچکے۔“ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ”ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے۔“
جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت «يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ»[42-الشورى:18] ” بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار ان سے لرزاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں “۔
4398
ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہوگا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منادی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دوسرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الٰہی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہوگا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی، ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا ۔ [طبرانی کبیر:325/17:صحیح]
پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔