[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔ [24] وہ اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ [25] اور گندی بات کی مثال ایک گندے پودے کی طرح ہے، جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا گیا، اس کے لیے کچھ بھی قرار نہیں۔ [26] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزه بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزه درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں [24] جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل ﻻتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وه نصیحت حاصل کریں [25] اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ﺛبات تو ہے نہیں [26]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے (وہ ایسی ہے) جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط (یعنی زمین کو پکڑے ہوئے) ہو اور شاخیں آسمان میں [24] اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا (اور میوے دیتا) ہو۔ اور خدا لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں [25] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے (نہ جڑ مستحکم نہ شاخیں بلند) زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے گا اس کو ذرا بھی قرار (وثبات) نہیں [26]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 24، 25، 26،
لا الہ الا اللہ کی شہادت ٭٭
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، کلمہ طیبہ سے مراد «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کی شہادت ہے۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے۔ یعنی مومن کے دل میں «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:439/7] کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:439/7]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ [سنن ترمذي:3119،قال الشيخ الألباني:مرفوعاً ضعیف]
4219
صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے؟ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ سا ہو رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ درخت کھجور کا ہے ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا۔ تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ”پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا“۔ [صحیح بخاری:4698]
حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا۔ میں اس لیے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا ۔ [صحیح بخاری:2209]
اور روایت میں ہے کہ جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا ۔ [صحیح بخاری:131]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں ۔ اس نے پوچھا وہ کیا؟ فرمایا: دعا «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ» ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:مرسل]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے، ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال۔“ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل، اچھے، بہت اور عمدہ۔
4220
اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لیے مثالیں واضح فرماتا ہے۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی۔ جس کی کوئی اصل نہیں، جو مضبوط نہیں، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں۔ ایک موقوف روایت میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعاً بھی آئی ہے۔ [سنن ترمذي:3119،قال الشيخ الألباني:ضعیف مرفوع]
اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا۔ اسی طرح سے کفر بے جڑ اور بے شاخ ہے، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو۔