وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ[13]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں سے کہا ہم ہر صورت تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا لازماً تم ہماری ملت میں واپس آئو گے، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ یقینا ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے۔ [13]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے [13]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے [13]۔
........................................
کافر جب تنگ ہوئے، کوئی حجت باقی نہ رہی تو نبیوں کو دھمکانے لگے اور دیس نکالنے سے ڈرانے لگے۔ قوم شعیب نے بھی اپنے نبی اور مومنوں سے یہی کہا تھا کہ «لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا» [7-الأعراف:88] ” ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے “۔
لوطیوں نے بھی یہی کہا تھا کہ «أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ» [27-النمل:55] ” آل لوط کو اپنے شہر سے نکال دو، وہ اگرچہ مکر کرتے تھے لیکن اللہ بھی ان کے داؤ میں تھا “۔
اور آیت میں ہے کہ «وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا» [17-الاسراء:76] ” یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم اس سر زمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے نکال دیں۔ پھر یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے “۔ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامتی کے ساتھ مکے سے لے گیا مدینے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انصار و مددگار بنا دیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں شامل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے کافروں سے لڑے اور بتدریج اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترقیاں دیں یہاں تک کہ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ بھی فتح کر لیا۔
اور آیت میں ہے «وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ» [8-الأنفال:30] ” اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کر لیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خارج وطن کر دیں اور وه تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر والا اللہ ہے “۔
اب تو دشمنان دین کے منصوبے خاک میں مل گئے ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ان کی آرزویں پامال ہو گئیں۔ اللہ کا دین لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہو گیا، جماعتوں کی جماعتیں دین میں داخل ہونے لگیں، تمام روئے زمین کے ادیان پر دین اسلام چھا گیا، کلمہ حق بلند و بالا ہو گیا اور تھوڑے سے زمانے میں مشرق سے مغرب تک اشاعت اسلام ہو گئی «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
یہاں فرمان ہے کہ ” ادھر کفار نے نبیوں کو دھمکایا ادھر اللہ نے ان سے سچا وعدہ فرمایا کہ یہی ہلاک ہوں گے اور زمین کے مالک تم بنو گے “۔