[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ستونوں کے، جنھیں تم دیکھتے ہو، پھر وہ عرش پر بلند ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ہر ایک ایک مقرر وقت کے لیے چل رہا ہے، وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، کھول کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔ [2] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے، وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وه اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو [2]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے) اونچے بنائے۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔ ہر ایک ایک میعاد معین تک گردش کر رہا ہے۔ وہی (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتا ہے (اس طرح) وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم اپنے پروردگار کے روبرو جانے کا یقین کرو [2]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 2،
باب
کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے اردگرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہٰ کئے ہوئے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت «اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ» [ 65- الطلاق: 12 ] یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔
4112
بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے۔ بعض مفسر کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت «وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ»[22-الحج:65] سے بھی ظاہر ہے پس «تَرَوْنَهَا» اس نفی کی تاکید ہوگی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو، یہ ہے کمال قدرت۔
امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے ہیں جن میں ہے «وَأَنْتَ الَّذِي مِنْ فَضْلِ مَنٍّ وَرَحْمَةٍ بَعَثْتَ إِلَى مُوسَى رَسُولًا مُنَادِيَا فَقُلْتَ لَهُ: فَاذْهَبْ وَهَارُونَ فَادْعُوَا إِلَى اللَّهِ فَرْعَونَ الَّذِي كَانَ طَاغِيًا وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ هَذِهِ بِلَا وَتِدٍ حَتَّى اطْمَأَنَّتْ كَمَا هِيَا وَقُولَا لَهُ: أَأَنْتَ رَفَعْتَ هَذِهِ بِلَا عَمَدٍ أَرْفِقْ إِذًا بِكَ بَانِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ وَسْطَهَا مُنِيرًا إِذَا مَا جَنَّكَ اللَّيلُ هَادِيًا وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُرْسِلُ الشَّمْسَ غُدْوَةً فيُصْبِحَ مَا مَسَّتْ مِنَ الْأَرْضِ ضَاحِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُنْبِتُ الْحَبَّ فِي الثَّرَى فيُصْبِحَ مِنْهُ العُشْبُ يَهْتَزُّ رَابِيَا؟ وَيُخْرِجُ مِنْهُ حَبَّهُ فِي رُءُوسِهِ فَفِي ذَاكَ آيَاتٌ لِمَنْ كَانَ وَاعِيَا» تو اللہ وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لیے اس سے کہیں کہ اس بلند و بالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لیے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے۔
4113
پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا۔ اس کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے۔ کیفیت، تشبیہ، تعطیل، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر و بالا ہے۔ سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے۔
جیسے فرمان ہے کہ «وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ»[36-يس:38] ” سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے “۔ اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لیے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا۔ آیات و احادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ «وَلِلَّهِ الْحَمْد وَالْمِنَّة»
4114
صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے۔ جیسے کہ «لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ»[41-الفصلت:37] سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے۔ پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے فرمان ہے «الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِهٖ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ»[7-الأعراف:54] یعنی ” سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں، وہی خلق و امر والا ہے، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے “۔
وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا۔