[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور یقینا اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کوئی رحمت چکھائیں، پھر اسے اس سے چھین لیں تو بے شک وہ یقینا نہایت نا امید، بے حد ناشکرا ہوتا ہے۔ [9] اور بے شک اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو تو یقینا ضرور کہے گا سب تکلیفیں مجھ سے دور ہو گئیں۔ بلاشبہ وہ یقینا بہت پھولنے والا، بہت فخر کرنے والا ہے۔ [10] مگر وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا اور نیک اعمال کیے، یہ لوگ ہیں جن کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔ [11] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وه بہت ہی ناامید اور بڑا ہی ناشکرا بن جاتا ہے [9] اور اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وه کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں، یقیناً وه بڑا ہی اترانے واﻻ شیخی خور ہے [10] سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ انہی لوگوں کے لئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی [11]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اس کو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا) ہے [9] اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں تو (خوش ہو کر) کہتا ہے کہ (آہا) سب سختیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ بےشک وہ خوشیاں منانے والا (اور) فخر کرنے والا ہے [10] ہاں جنہوں نے صبر کیا اور عمل نیک کئے۔ یہی ہیں جن کے لیے بخشش اور اجرعظیم ہے [11]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 9، 10، 11،
انسان کا نفسیاتی تجزیہ ٭٭
سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ” راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض نا اُمید ہو جاتے ہیں اللہ سے بدگمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں۔ اکڑ میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں “۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی ۔ [صحیح بخاری:6541]
بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے۔ تکلیف اٹھا کر صبر کرتا ہے، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو ۔ [صحیح مسلم:2999]
اسی کا بیان سورۃ والعصر میں ہے، «وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ»[ 103-سورة العصر: 1-3 ] یعنی ” عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں “
یہی بیان آیت «إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا إِلَّا الْمُصَلِّينَ»[70-المعارج:19-22] میں ہے۔