[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر کوئی جھوٹ باندھے، یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ مجرم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ [17] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] سو اس شخص سے زیاده کون ﻇالم ہوگا جو اللہ پرجھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے، یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی [17]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا پر جھوٹ افترا کرے اور اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ بےشک گنہگار فلاح نہیں پائیں گے [17]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 17،
مجرم اور ظالموں کا سرغنہ ٭٭
اس سے زیادہ ظالم، اس سے زیادہ مجرم، اسے زیادہ سرکش اور کون ہو گا؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور اس کی طرف نسبت کر کے وہ کہے جو اس نے نہ فرمایا ہو۔ رسالت کا دعویٰ کردے حالانکہ اللہ نے اسے نہ بھیجا ہو۔ ایسے جھوٹے لوگ تو عامیوں کے سامنے بھی چھپ نہیں سکتے چہ جائیکہ عاقلوں کے سامنے اس گناہ کا کبیرہ ترین ہونا تو کسی سے مخفی نہیں۔
پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ نبی علیہ السلام اس سے غافل رہیں؟ یاد رکھو جو بھی منصب نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کی صداقت یا جھوٹ پر ایسے دلائل قائم کر دیتی ہے کہ اس کا معاملہ بالکل ہی کھل جاتا ہے۔
ایک طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیجئے اور دوسری جانب مسلیمہ کذاب کو رکھئے تو اتنا ہی فرق معلوم ہوگا، جتنا آدھی رات اور دوپہر کے وقت میں دونوں کے اخلاق عادات، حالات کا معائنہ کرنے والا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اس کی غلط گوئی میں کوئی شک نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سجاح اور اسود عنسی کا دعویٰ ہے کہ نظر ڈالنے کے بعد کسی کو ان کے جھوٹ میں شک نہیں رہتا۔
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کے لیے گئے۔ میں بھی گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نظریں پڑتے ہی میں نے سمجھ لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں۔ پاس گیا تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلام سنا کہ لوگو سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاتے رہا کرو صلہ رحمی قائم رکھو، راتوں کو لوگوں کی نیند کے وقت تہجد کی نماز پڑھا کرو تو سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے ۔ [سنن ترمذي:2485قال الشيخ الألباني:صحیح]
3665
اسی طرح جب سعد بن بکر کے قبیلے کے وفد میں سیدنا ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پوچھا کہ اس آسمان کا بلند کرنے والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس نے پوچھا ان پہاڑوں کا گاڑنے ولا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ۔ اس نے پوچھا اس زمین کا پھیلانے والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ، تو اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی اللہ کی قسم دیتا ہوں، جس نے ان آسمانوں کو بلند کیا، ان پہاڑوں کو گاڑ دیا اس زمین کو پھیلا دیا کہ کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اسی اللہ کی قسم ہاں ۔ اسی طرح نماز، زکوٰۃ، حج اور روزے کی بابت بھی اس نے ایسی ہی تاکیدی قسم دلا کر سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قسم کھا کر جواب دیا۔ تب اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں۔ اس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ نہ میں اس پر بڑھاؤں گا اور نہ کم کروں گا ۔ [صحیح بخاری:63]
پس اس شخص نے صرف اسی پر قناعت کرلی۔ اور جو دلائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اس کے سامنے تھے ان پر اسے اعتبار آگیا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کتنا اچھا شعر کہا ہے
یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اگر اور ظاہر اور کھلی نشانیاں نہ بھی ہوتیں تو صرف یہی ایک بات کافی تھی کہ چہرہ دیکھتے ہی بھلائی اور خوبی تیری طرف لپکتی ہے۔ «فَصَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ» ۔
برخلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کذاب مسیلمہ کے جس نے اسے بیک نگاہ دیکھ لیا اس کا جھوٹ اس پر کھل گیا، خصوصاً جس نے اس کے فضول اقوال اور بدترین افعال دیکھ لیے، اسے اس کے جھوٹ میں ذرا سا شائبہ بھی نہ رہا۔ جسے وہ اللہ کا کلام کہہ رہا تھا اس کلام کی بدمزگی، اس کی بے کاری، تو اتنی ظاہر ہے کہ کلام کے سامنے پیش کئے جانے کے بھی قابل نہیں۔
لو اب تم ہی انصاف کرو، آیت الکرسی [البقرة:255] کے مقابلے میں اس ملعون نے یہ آیت بنائی تھی۔ «(يَا ضُفْدَعُ بِنْتَ الضُّفْدَعَيْنِ، نَقِّي كَمَا تُنَقِّينَ لَا الْمَاءُ تُكَدِّرِينَ، وَلَا الشَّارِبُ تَمْنَعِينَ)» یعنی اے مینڈکوں کے بچے مینڈک تو ٹراتا رہ۔ نہ تو پانی خراب کر سکے نہ پینے والوں کو روک سکے۔ اس طرح اس کے ناپاک کلام کے نمونے میں اس کی بنائی ایک اور آیت ہے کہ «(لَقَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَى الْحُبْلَى، إِذْ أَخْرَجَ مِنْهَا نَسَمَةً تَسْعَى، مِنْ بَيْنِ صِفَاقٍ وَحَشَى)» اللہ نے حاملہ پر بڑی مہربانی فرمائی کہ اس کے پیٹ سے چلتی پھرتی جان برآمد کی، جھلی اور آنتوں کے درمیان سے۔ سورۃ الفیل کے مقابلے میں وہ پاجی کہتا ہے «(الْفِيلُ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْفِيلُ؟ لَهُ زُلْقُومٌ طَوِيلٌ)» یعنی ہاتھی اور کیا جانے تو کیا ہے ہاتھی؟ اس کی بڑی لمبی سونڈھ ہوتی ہے۔
3667
والنازعات کا معارضہ کرتے ہوئے یہ کمینہ کہتا ہے «(وَالْعَاجِنَاتِ عَجْنًا، وَالْخَابِزَاتِ خَبْزًا، وَاللَّاقِمَاتِ لَقْمًا، إِهَالَةً وَسَمْنًا، إِنَّ قُرَيْشًا قَوْمٌ يَعْتَدُونَ)» یعنی آٹا گوندھنے والا اور روٹی پکانے والیاں، اور لقمے بنانے والیاں، سالن اور گھی سے، قریشی لوگ بہت آگے نکل گئے۔
اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ یہ بچوں کا کھیل ہے یا نہیں؟ شریف انسان تو سوائے مذاق کے ایسی بات منہ سے بھی نہیں نکال سکتا پھر اس کا انجام دیکھئیے لڑائی میں مارا گیا، اس کا گروہ مٹ گیا۔ اس کے ساتھیوں پر لعنت برسی۔ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاس خائب و خاسر ہو کر منہ پر مٹی مل کر پیش ہوئے اور رو دھو کر توبہ کر کے جوں جوں کر کے جان بچائی۔
پھر تو اللہ کے سچے دین کی چاشنی سے ہونٹ چوسنے لگے۔ ایک روز ان سے خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مسیلمہ کا قرآن تو سناؤ تو بہت سٹ پٹائے بے حد شرمائے اور کہنے لگے ہمیں اس ناپاک کلام کے زبان سے نکالنے پر مجبور نہ کیجئے ہمیں تو اس سے شرم معلوم ہوتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں تو ضرور سناؤ تاکہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی اس کی رکاکت اور بے ہودگی معلوم ہو جائے۔ آخر مجبور ہو کر انہوں نہایت ہی شرماتے ہوئے کچھ پڑھا جس کا نمونہ اوپر گزرا کہ کہیں میں مینڈک کا ذکر کہیں ہاتھی کا کہیں روٹی کا کہیں حمل کا۔ اور وہ سارے ہی ذکر بےسود بے مزہ اور بے کار۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آخر میں فرمایا یہ تو بتاؤ تمہاری عقلیں کہاں ماری گئیں تھیں؟ واللہ اسے تو کوئی بے وقوف بھی ایک لمحہ کے لیے کلام اللہ نہیں کہہ سکتا۔
3668
مذکور ہے کہ عمرو بن العاص اپنے کفر کے زمانے میں مسیلمہ کے پاس پہنچا، یہ دونوں بچپن کے دوست تھے اس سے پوچھا کہو عمرو تمہارے ہاں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آج کل جو وحی اتری ہو اس میں سے کچھ سنا سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم ایک مختصر سورت پڑھتے تھے جو میری زبان پر بھی چڑھ گئی لیکن بھائی اپنی مضمون کے لحاظ سے وہ سورت بہت بڑی اور بہت ہی اعلیٰ ہے اور لفظوں کے اعتبار سے بہت ہی مختصر اور بڑی جامع ہے۔ پھر اس نے سورۃ والعصر پڑھ سنائی۔
مسیلمہ چپکا ہوگیا بہت دیر کے بعد کہنے لگا مجھ پر اسی جیسی سورت اتری ہے۔ اس نے کہا ہاں تو بھی سنا دے تو اس نے پڑھا «(يَا وَبْرُ إِنَّمَا أَنْتِ أُذُنَانِ وَصَدْرٌ، وَسَائِرُكِ حَقْرٌ نَقْرٌ)» یعنی اے وبر جانور تیرے تو بس دو کان ہیں اور سینہ ہے، اور باقی جسم تو تیرا بالکل حقیر اور عیب دار ہے۔ یہ سنا کر عمرو سے پوچھتا ہے کہو دوست کیسی کہی؟ اس نے کہا دوست اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی اور کیسی کہی؟
پس جب کہ ایک مشرک پر بھی سچے جھوٹے کی تمیز مشکل نہ ہوئی تو ایک صاحب عقل تمیز دار اور بایمان پر کیسے یہ بات چھپ سکتی ہے؟ اس کا بیان «وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ»[6-الأنعام:93] میں ہے یعنی ” اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے یا اس کے طرف وحی نہ آنے کے باوجود وحی آنے کا دعویٰ کرنے والے سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں “۔
اسی طرح جو کہے کہ میں بھی اللہ کی طرح کا کلام اتار سکتا ہوں، مندرجہ بالا آیت میں بھی یہی فرمان ہے۔ پس وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے۔ حجت ظاہر ہو جانے پر بھی نہ مانے۔
حدیث میں ہے سب سے بڑا سرکش اور بدنصیب وہ ہے جو کسی نبی کو قتل کرے یا نبی اسے قتل کرے ۔ [مسند احمد32/4 [قال الشيخ الألباني:حسن]