تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[109] لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ[110]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو کیا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر رکھی، بہتر ہے، یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کھوکھلے تودے کے کنارے پر رکھی، جو گرنے والا تھا؟ پس وہ اسے لے کر جہنم کی آگ میں گر گیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ [109] ان کی عمارت جو انھوں نے بنائی، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے چینی کا باعث بنی رہے گی، مگر اس صورت میں کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [110]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وه شخص، کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وه اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے، اور اللہ تعالیٰ ایسے ﻇالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا [109] ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں تو خیر، اور اللہ تعالیٰ بڑا علم واﻻ بڑی حکمت واﻻ ہے [110]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گر جانے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ میں لے گری اور خدا ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا [109] یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں (موجب) خلجان رہے گی (اور ان کو متردد رکھے گی) مگر یہ کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں اور خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے [110]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 109، 110،

باب

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مسجد کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الہٰی پر رکھی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد ضرار اور مسجد کفر بنائی اور مومنین میں تفریق ڈال دی اور اللہ سے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لئے اس کو جائے پناہ قرار دیا، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ان لوگوں نے تو اس مسجد ضرار کی بنیاد گویا ایک گڑھے کے ڈھلتے ہوئے کنارے پر رکھی جو اسے جہنم کی آگ میں لے گری۔ اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں فرماتا۔ یعنی مفسدین کے عمل کو اصلاح پزیر نہیں بناتا۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسجد ضرار کو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسبِ فرمان جب اس میں آگ لگا دی گئی تو اس میں دھواں نکل رہا تھا۔ ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے ایک جگہ گڑھا کھودا تو اس میں سے دھواں نکلتا ہوا پایا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:17262:ضعیف] ‏‏‏‏

قتادہ رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ خلف بن یاسین کوفی کہتے ہیں کہ میں نے منافقین کی اس مسجد کو دیکھا کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے، یہ دیکھا کہ اس میں ایک سوراخ ہے جس میں سے دھواں نکل رہا ہے اور آج کے روز وہ جگہ گندگی پھینکنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:17264:ضعیف] ‏‏‏‏ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کو روایت کیا، اور قولہ تعالیٰ «لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ» [9-التوبة:110] ‏‏‏‏ یعنی ان کی بنائی ہوئی یہ عمارت تو ہمیشہ ان کے دلوں میں شک و شبہ کی باعث ہی رہے گی اور اس عمل شنیع کا اقدام کرنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نفاق کا بیج بوتی رہے گی، جیسا کہ گوسالہ پرستوں کے دل میں گوسالہ کی محبت پڑی ہوئی تھی «إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ» البتہ اس صورت میں ان منافقین کی بیخ کنی ہو سکتی ہے جب کہ اس مسجد ہی کو ختم کر کے ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں۔ اللہ اپنے بندوں کے اعمال کو خوب جانتا ہے اور خیر و شر کا بدلہ دینے میں بڑا حکیم ہے۔
3596



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.