[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کو سزا دی جنھوں نے کفر کیا اور یہی کافروں کی جزا ہے۔ [26] پھر اس کے بعد اللہ توبہ کی توفیق دے گا جسے چاہے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [27] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وه لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا [26] پھر اس کے بعد بھی جس پر چاہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی توجہ فرمائے گا اللہ ہی بخشش و مہربانی کرنے واﻻ ہے [27]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر خدا نے اپنے پیغمبر پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (اور تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اُتارے اور کافروں کو عذاب دیا اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے [26] پھر خدا اس کے بعد جس پر چاہے مہربانی سے توجہ فرمائے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے [27]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 26، 27،
نصرتِ الٰہی کا ذکر ٭٭
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”برأت کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کر دیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی۔“
یہ صرف تائید الہٰی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی۔ یاد کر لو حنین والے دن ذرا تمہیں اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہو گیا تو کیا حال ہوا؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے۔ معدودے چند ہی پیغمبرِ رب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے اسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گروہ کے منہ پھیر دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی امداد صابروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ واقعہ ہم عنقریب تفصیل وار بیان کریں، ان شاءاللہ تعالیٰ۔
مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعداد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی۔ یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ [سنن ابوداود:2611،قال الشيخ الألباني:صحیح] امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسلاً بیان کی ہے ابن ماجہ اور بہیقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے، واللہ اعلم۔
٨ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہِ شوال میں جنگ حنین ہوئی تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموماً مکی حضرات مسلمان ہو چکے اور انہیں آپ آزاد بھی کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے۔ ان کا سردار مالک بن عوف نضری ہے۔
3424
ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم، بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے بھی کچھ لوگ ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن عامر کے اور عون بن عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس لشکر کو لے کر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے۔ تقریباً دو ہزار تو مسلم مکی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیے۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا۔
صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمین گاہ میں چپھے ہوئے تھے انہوں نے بےخبری میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا بےپناہ تیر اندازی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفید خچر پر سوار تھے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور سیدنا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم با آواز بلند اپنے آپ کو پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو! کہاں چلے میری طرف آؤ میں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں، میں اولادِ عبدالمطلب میں سے ہوں۔
3425
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم رہ گئے تھے۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ، سیدنا ایمن بن ام ایمن رضی اللہ عنہ، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو جو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں۔ پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے والو! اے سورۃ البقرہ کے حاملو! پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے «لبیک لبیک» کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس آ کر کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہو گیا۔
جب کچھ جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری تعالیٰ جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھیں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے۔
3426
مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا۔ اور مسلمانوں کی باقی فوج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے ان کفار کو قید کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر کر دیا۔
مسند احمد میں ہے سیدنا عبدالرحمٰن فہری رضی اللہ عنہ جن کا نام یزید بن اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ ”میں اس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے۔ سورج ڈھلنے کے بعد میں نے اپنے ہتھیار لگا لئے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے میں پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ہوائیں ٹھنڈی ہو گئی ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ٹھیک ہے“[آواز دی] ، بلال رضی اللہ عنہ! اس وقت بلال رضی اللہ عنہ ایک درخت کے سائے میں تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر «لبیک و سعدیک و انا فداوک» کہتے ہوئے حاضر ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری سواری کسو۔“ اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی۔ جب کس چکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے ہم نے صف بندی کر لی شام اور رات اسی طرح گذری پھر دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ ہو گئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو! میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین! میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں، پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی۔ اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں اور منہ میں یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا زمین و آسمان کے درمیان لوہا کسی لوہے کی کے طشت پر بج رہا ہے۔“[مسند احمد:276/5:حسن]
3427
ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت حملہ کا حکم دے دیا۔ اول تو منادی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گئی۔ یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فے میں دلا دیں۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ ”اے ابو عمارہ! کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے“؟ آپ نے فرمایا: ”لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے تو انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو وقار اندازی کے ساتھ تیروں کی بارش برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی۔ سبحان اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا، لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتلا رہے ہیں کہ نہ پہنچاننے والے بھی پہنچا لیں۔“[مسند احمد:376/3:حسن]
خیال فرمائیے کہ کس قدر ذات واحد پر توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد پر ہے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کے ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابداً ابدا۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا تھا۔
3428
ایک مشرک کا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائے اتنی دیر میں ہم نے بھی انہیں اپنے سامنے جمنے نہیں دیا فوراً بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر آۓ، ہم نے دیکھا یہ کہ خوبصورت نورانی سفید چہرے والے کچھ لوگ ان کے اردگرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہرے بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہمیں شکست ہو گئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہو گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:3151]
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میں بھی اس لشکر میں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اسیّ [80] مہاجر و انصار رہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ تعالیٰ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم زین پر سے نیچے کی طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونچا ہی رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو۔“ میں نے بھر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا: ”مہاجر و انصار کہاں ہیں“؟ میں نے کہا: ”یہیں ہیں۔“ فرمایا: ”انہیں آواز دو“ میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں تولے ہوئے لپک لپک کر آ گئے۔ اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔“[مسند احمد:454/1:حسن]
3429
بیہیقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ ”حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بدر والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارنا یاد آگیا کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا؟ آؤ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں۔ اس ارادے سے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو پایا۔ سفید چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں۔
میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنا کام کروں، ادھر سے آیا تو دیکھا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں، میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں، اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں کاوا کاٹ کر پیچھے کی طرف آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونپ کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا کہ ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑنا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا۔
اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا: ”شیبہ میرے پاس آ۔ اے اللہ اس کا شیطان دور کر دے“، اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو واللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیبہ جا کافروں سے لڑ۔“[دلائل النبوۃ للبیهقی:145/5:ضعیف]
شیبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہوازن قریش پر غالب آ جائیں؟
3430
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا جو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیبہ وہ تو سواۓ کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ! شیبہ کو ہدایت کر، پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا۔ واللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میں اپنے دل میں پانے لگا۔ [دلائل النبوۃ للبیهقی:145/5:ضعیف]
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”میں اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتر رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان کو گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ! ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی۔“[دلائل النبوۃ للبیهقی:146/5:ضعیف]
یزید بن عامر سوائ اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافرں کے ساتھ تھے بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں پر رعب و خوف کا کیا حال تھا؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے: ”بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آ رہی تھی بےطرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا۔“[طبرانی کبیر:237،238/22:ضعیف]
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”مجھے رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں۔ [صحیح مسلم:523] الغرض کفار کو اللہ تعالیٰ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا۔ باقی ہوازن پر اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ مکرمہ کے قریب جعرانہ کے پاس پہنچ چکے تھے۔
3431
جنگ کو بیس دن کے قریب گذر چکے تھے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کر لو یا تو قیدی یا مال“؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی، مرد عورت کی، بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا، اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہو جائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔
مالک بن عوف نصری کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ دیئے اور اس کو اس کی قوم کا سردار بنا دیا جیسے کہ وہ تھا۔ اس کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ ”میں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا، دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے تھے۔ یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےمثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں۔“