كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ[8]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیسے ممکن ہے جب کہ وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمھارے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں گے اور نہ کسی عہد کا، تمھیں اپنے مونہوں سے خوش کرتے ہیں اور ان کے دل نہیں مانتے اور ان کے اکثر نافرمان ہیں۔ [8]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہدوپیمان کا، اپنی زبانوں سے تو تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں سے اکثر تو فاسق ہیں [8]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (بھلا ان سے عہد) کیونکر (پورا کیا جائے جب ان کا یہ حال ہے) کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا۔ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل (ان باتوں کو) قبول نہیں کرتے۔ اور ان میں اکثر نافرمان ہیں [8]۔
........................................
اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں اس سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں۔ «آل» کے معنی قرابت داری کے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا یہی لفظ «ال» سے «إيل» بن کر جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل میں آیا یعنی اس کا معنی اللہ تعالیٰ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”مراد عہد ہے۔“ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے مراد قسم ہے۔