تفسير ابن كثير



سورۃ الأنفال

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ[74] وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ[75]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں، انھی کے لیے بڑی بخشش اور باعزت رزق ہے۔ [74] اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمھارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ تم ہی سے ہیں، اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں، ان کے بعض، بعض کے زیادہ حق دار ہیں۔ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ [75]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو لوگ ایمان ﻻئے اور ہجرت کی اور اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناه دی اور مدد پہنچائی، یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی [74] اور جو لوگ اس کے بعد ایمان ﻻئے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیاده نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے واﻻ ہے [75]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے [74] اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ اور رشتہ دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے [75]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 74، 75،

مہاجر اور انصار میں وحدت ٭٭

مومنوں کا دنیوی حکم ذکر فرما کر اب آخرت کا حال بیان فرما رہا ہے ان کے ایمان کی سچائی ظاہر کر رہا ہے جیسے کہ سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے انہیں بخشش ملے گی ان کے گناہ معاف ہوں گے انہیں عزت کی پاک روزی ملے گی جو برکت والی ہمیشگی والی طیب و طاہر ہو گی قسم قسم کی لذیذ عمدہ اور نہ ختم ہونے والی ہو گی۔ ان کی اتباع کرنے والے ایمان و عمل صالح میں ان کا ساتھ دینے والے آخرت میں بھی درجوں میں ان کے ساتھ ہی ہوں گے۔جیسا کہ «وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ» ‏‏‏‏ [ 9- التوبہ: 100 ] ‏‏‏‏ اور «وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ» [ 59- الحشر: 10 ] ‏‏‏‏ میں ہے۔

متفق علیہ بلکہ متواتر حدیث میں ہے کہ انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہے۔ [صحیح بخاری:6167] ‏‏‏‏

دوسری حدیث میں ہے جو کسی قوم سے محبت رکھے وہ ان میں سے ہی ہے۔ ایک روایت میں ہے اس کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہو گا۔ [طبرانی صغیر:874] ‏‏‏‏

مسند احمد کی حدیث گذر چکی ہے کہ مہاجر و انصار آپس میں ایک دوسری کے ولی ہیں فتح مکہ کے بعد مسلمان قریشی اور ثقیف کے آزاد شدہ آپس میں ایک ہیں، قیامت تک یہ سب آپس میں ولی ہیں۔ [مسند احمد:363/4:صحیح] ‏‏‏‏
3381

پھر اولو الارحام کا بیان ہوا یہاں ان سے مراد وہی قرابت دار نہیں جو علماء فرائض کے نزدیک اس نام سے یاد کئے جاتے ہیں یعنی جن کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور جو عصبہ بھی ہوں جیسے خالہ، ماموں، پھوپھی، نواسے، نواسیاں، بھانجے، بھانجیاں وغیرہ۔ بعض کا یہی خیال ہے آیت سے حجت پکڑتے ہیں اور اسے اس بارے میں صراحت والی بتاتے ہیں۔

یہ نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے تمام قرابت داروں کو شامل ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ،مجاہد،عکرمہ،حسن،قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ناسخ ہے آپس کی قسموں پر وارث بننے کی اور بھائی چارے پر وارث بننے کی جو پہلے دستور تھا پس یہ علماء فرائض کے ذوی الارحام کو شامل ہو گی خاص نام کے ساتھ۔ اور جو انہیں وارث نہیں بناتے ان کے پاس کئی دلیلیں ہیں سب سے قوی یہ حدیث ہے کہ اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دلوادیا ہے پس کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ [سنن ابوداود:2870،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی حقدار ہوتے تو ان کے بھی حصے مقرر ہو جاتے جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

«الْحَمْدُ لِلَّـه» سورۂ انفال کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ پر ہمیں بھروسہ ہے وہی ہمیں کافی ہے اور وہی کارساز ہے۔
3382



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.