تفسير ابن كثير



سورۃ الأنفال

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ[45] وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ[46]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ [45] اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں مت جھگڑو، ورنہ بزدل ہو جائو گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ [46]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ﺛابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو [45] اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [46]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو [45] اور خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو۔ کہ خدا صبر کرنے والوں کا مددگار ہے [46]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 45، 46،

جہاد کے وقت کثرت سے اللہ کا ذکر ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو لڑائی کی کامیابی کی تدبیر اور دشمن کے مقابلے کے وقت شجاعت کا سبق سکھا رہا ہے ایک غزوے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا: لوگو دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہو لیکن جب دشمنوں سے مقابلہ ہو جائے تو استقلال رکھو اور یقین مانو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے سچی کتاب کے نازل فرمانے والے اے بادلوں کے چلانے والے اور لشکروں کو ہزیمت دینے والے اللہ ان کافروں کو شکست دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔ [صحیح بخاری:2818] ‏‏‏‏

عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ دشمن کے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور مقابلے کے وقت ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ گو وہ چیخیں چلائیں لیکن تم خاموش رہا کرو۔ [عبد الرزاق:9518:ضعیف] ‏‏‏‏

طبرانی میں ہے تین وقت ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو خاموشی پسند ہے [ ١ ] ‏‏‏‏ تلاوت قرآن کے وقت [ ٢ ] ‏‏‏‏ جہاد کے وقت اور [ ٣ ] ‏‏‏‏ جنازے کے وقت۔ [طبرانی کبیر:5130:ضعیف] ‏‏‏‏

ایک اور حدیث میں ہے کامل بندہ وہ ہے جو دشمن کے مقابلے کے وقت میرا ذکر کرتا رہے یعنی اس حال میں بھی میرے ذکر کو مجھ سے دعا کرنے اور فریاد کرنے کو ترک نہ کرے۔ [سنن ترمذي:3580،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑائی کے دوران یعنی جب تلوار چلتی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر فرض رکھا ہے۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ چپ رہنا اور ذکر اللہ کرنا لڑائی کے وقت بھی واجب ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ تو جریج نے آپ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد بلند آواز سے کریں؟ آپ نے فرمایا ہاں کعب احبار فرماتے ہیں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر اللہ سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک اور کوئی چیز نہیں۔
3325

اس میں بھی اولیٰ وہ ہے جس کا حکم لوگوں کو نماز میں کیا گیا ہے اور جہاد میں کیا تم نہیں دیکھتے؟ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بوقت جہاد بھی اپنے ذکر کا حکم فرمایا ہے پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھی۔

شاعر کہتا ہے کہ عین جنگ و جدال کے وقت بھی میرے دل میں تیری یاد ہوتی ہے۔ عنترہ کہتا ہے نیزوں اور تلواروں کے شپاشپ چلتے ہوئے بھی میں تجھے یاد کرتا رہتا ہوں۔

پس آیت میں جناب باری نے دشمنوں کے مقابلے کے وقت میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور صبر و استقامت کا حکم دیا کہ ” نامرد، بزدل اور ڈرپوک نہ بنو اللہ کو یاد کرو اسے نہ بھولو۔ اس سے فریاد کرو اس سے دعائیں کرو اسی پر بھروسہ رکھو اس سے مدد طلب کرو۔ یہی کامیابی کے گر ہیں۔ اس وقت بھی اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہاتھ سے نہ جانے دو وہ جو فرمائیں بجا لاؤ جن سے روکیں رک جاؤ آپس میں جھگڑے اور اختلاف نہ پھیلاؤ ورنہ ذلیل ہو جاؤ گے بزدلی جم جائے گی ہوا اکھڑ جائے گی۔ قوت اور تیزی جاتی رہے گی اقبال اور ترقی رک جائے گی۔ دیکھو صبر کا دامن نہ چھوڑو اور یقین رکھو کہ صابروں کے ساتھ خود اللہ ہوتا ہے۔“
3326

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان احکام میں ایسے پورے اترے کہ ان کی مثال اگلوں میں بھی نہیں پیچھے والوں کا تو ذکر ہی کیا ہے؟

یہی شجاعت یہی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہی صبر و استقلال تھا جس کے باعث مدد ربانی شامل حال رہی اور بہت ہی کم مدت میں باوجود تعداد اور اسباب کی کمی کے مشرق و مغرب کو فتح کر لیا نہ صرف لوگوں کے ملکوں کے ہی مالک بنے بلکہ ان کے دلوں کو بھی فتح کر کے اللہ کی طرف لگا دیا۔

رومیوں اور فارسیوں کو ترکوں اور صقلیہ کو بربریوں اور حبشیوں کو سوڈانیوں اور قبطیوں کو غرض دنیا کے گوروں کالوں کو مغلوب کر لیا اللہ کے کلمہ کو بلند کیا دین حق کو پھیلایا اور اسلامی حکومت کو دنیا کے کونے کونے میں جما دیا اللہ ان سے خوش رہے اور انہیں بھی خوش رکھے۔ خیال تو کرو کہ تیس سال میں دنیا کا نقشہ بدل دیا تاریخ کا ورق پلٹ دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا بھی انہی کی جماعت میں حشر کرے وہ کریم و وھاب ہے۔
3327



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.