[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور انھیں کیا ہے کہ اللہ انھیں عذاب نہ دے، جب کہ وہ مسجد حرام سے روک رہے ہیں، حالانکہ وہ اس کے متولی نہیں، اس کے متولی نہیں ہیں مگر جو متقی ہیں اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔ [34] اور ان کی نماز اس گھر کے پاس سیٹیاں بجانے اور تالیاں بجانے کے سوا کبھی کچھ نہیں ہوتی۔ سو عذاب چکھو اس وجہ سے جو تم کفر کرتے تھے۔ [35] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سزا نہ دے حاﻻنکہ وه لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں، جب کہ وه لوگ اس مسجد کے متولی نہیں۔ اس کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے [34] اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا۔ سو اپنے کفر کے سبب اس عذاب کا مزه چکھو [35]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (اب) ان کے لیے کون سی وجہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے جب کہ وہ مسجد محترم (میں نماز پڑھنے) سے روکتے ہیں اور وہ اس مسجد کے متولی بھی نہیں۔ اس کے متولی تو صرف پرہیزگار ہیں۔ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے [34] اور ان لوگوں کی نماز خانہٴ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اس کے بدلے عذاب (کا مزہ) چکھو [35]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 34، 35،
باب
ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کر دیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ ” اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں۔ “ قتادہ اور سدی رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:235/6]
ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چنانچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے «هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا» [ 48-الفتح: 25 ] ، یعنی ” یہ مکے والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلال ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی۔ اس وقت کی صلح اس لیے ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں لے لے۔“
3288
اگر مکے میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقیناً ان کافروں کو درد ناک مار ماری جاتی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اہل مکہ کے لیے باعث امن رہی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکے سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکے پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے۔
ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت «وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ» کو منسوخ کر دیا۔ چنانچہ عکرمہ اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ «انفال» میں «وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ» والی آیت کو اسکے بعد والی آیت «وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ» نے منسوخ کردیا ہے۔
چنانچہ «فَذُوقُوا الْعَذَابَ» فرمایا گیا چنانچہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی، انہیں ضرور بھی پہنچے، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کر لیا گیا ہے۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے «مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ»[9-التوبة:17] ، ” مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں۔“
3289
«إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ» [ 9-التوبہ: 18 ] ” مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر، قیامت پر ایمان رکھنے والے، نمازی، زکوٰۃ ادا کرنے والے، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں۔ “
اور آیت میں ہے کہ «مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ» [ 9-التوبہ: 17 ] ” مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ “
«وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ»[ 2-البقرة: 217 ] ” راہ رب سے روکنا، اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد الحرام کی بیحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا «إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ» ۔ [سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1304]
مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں؟ انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں۔ فرمایا: یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیزگاری والے ہوں [سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1688]
پس اللہ کے اولیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں۔
پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں؟ یا تو جانوروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیٹیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے۔ طواف کرتے ہیں تو ننگے ہو کر، رخسار جھکا کر، سیٹی بجائی، تالی بجائی، چلئے نماز ہو گئی۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا۔ بائیں طرف سے طواف کیا۔
یہ بھی مقصود تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بگاڑیں، مومنوں کا مذاق اڑائیں، لوگوں کو راہ رب سے روکیں۔ اب اپنے کفر کا بھرپور پھل چکھو، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے، تو لاچاری، چیخ اور زلزلے آئے۔