[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جس طرح تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا، حالانکہ یقینا مومنوں کی ایک جماعت تو ناپسند کرنے والی تھی۔ [5] وہ تجھ سے حق میں جھگڑتے تھے، اس کے بعد کہ وہ صاف ظاہر ہو چکا تھا، جیسے انھیں موت کی طرف ہانکا جا رہا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں۔ [6] اور جب اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کر رہا تھا کہ وہ تمھارے لیے ہو گا اور تم چاہتے تھے کہ جو کانٹے والا نہیں وہ تمھیں مل جائے اور اللہ چاہتا تھا کہ حق کو اپنی باتوں کے ساتھ سچا کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ [7] تاکہ وہ حق کو سچا کر دے اور باطل کو جھوٹا کر دے، خواہ مجرم ناپسند ہی کریں۔ [8] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی [5] وه اس حق کے بارے میں، اس کے بعد کہ اس کا ﻇہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکے لیے جاتا ہے اور وه دیکھ رہے ہیں [6] اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعده کرتا تھا کہ وه تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ﺛابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے [7] تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ﺛابت کردے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں [8]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اسی طرح نکلنا چاہیئے تھا) جس طرح تمہارے پروردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ اپنے گھر سے نکالا اور (اس وقت) مومنوں ایک جماعت ناخوش تھی [5] وہ لوگ حق بات میں اس کے ظاہر ہوئے پیچھے تم سے جھگڑنے لگے گویا موت کی طرف دھکیلے جاتے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں [6] اور (اس وقت کو یاد کرو) جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ (ابوسفیان اور ابوجہل کے) دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا (مسخر) ہوجائے گا۔ اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بے (شان و) شوکت (یعنی بے ہتھیار ہے) وہ تمہارے ہاتھ آجائے اور خدا چاہتا تھا کہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے اور کافروں کی جڑ کاٹ کر (پھینک) دے [7] تاکہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کردے۔ گو مشرک ناخوش ہی ہوں [8]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 5، 6، 7، 8،
شمع رسالت کے جاں نثاروں کی دعائیں ٭٭
مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ «كَمَا أَخْرَجَكَ» میں «كَمَا» کے آنے کا کیا سبب ہے۔ بعض نے کہا کہ آیت زیر ذکر میں تشبیہہ دی گئی ہے، مومنین کے باہمی صلح ساتھ ان کے ارتقاب اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں۔
ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جیسے تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا آخر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے نبی کو اس کی تقسیم کا اختیار دے دیا اور اپنے عدل و انصاف کے ساتھ اسے تم میں بانٹ دیا درحقیقت تمہارے لیے اسی میں بھلائی تھی اسی طرح اس نے باوجود تمہاری اس چاہت کے کہ قریش کا تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے اور جنگی جماعت سے مقابلہ نہ ہو اس نے تمہارا مقابلہ بغیر کسی وعدے کے ایک پر شکوہ جماعت سے کرا دیا اور تمہیں اس پر غالب کر دیا کہ اللہ کی بات بلند ہو جائے اور تمہیں فتح، نصرت، غلبہ اور شان شوکت عطا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت «كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» [ 2-البقرة: 216 ] ، یعنی ” تم پر جہاد فرض کیا گیا حالانکہ تم اسے برا جانتے ہو بہت ممکن ہے کہ ایک چیز کو اپنے حق میں اچھی نہ جانو اور درحقیقت وہی تمہارے حق میں بہتر ہو اور حق میں وہ بد تر ہو۔ دراصل حقائق کا علم اللہ ہی کو ہے تم محض بےعلم ہو۔ “
دوسرا مطلب یہ ہے کہ جیسے مومنوں کے ایک گروہ کی چاہت کے خلاف تجھے تیرے رب نے شہر سے باہر لڑائی کیلئے نکالا اور نتیجہ اسی کا اچھا ہوا ایسے ہی جو لوگ جہاد کیلئے نکلنا بوجھ سمجھ رہے ہیں دراصل یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مال غنیمت میں ان کا اختلاف بالکل بدر والے دن کے اختلاف کے مشابہ تھا۔ کہنے لگے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قافلے کا فرمایا تھا لشکر کا نہیں ہم جنگی تیاری کر کے نکلے ہی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے اسی ارادے سے نکلے تھے کہ ابوسفیان کے اس قافلے کو روکیں جو شام سے مدینہ کو قریشیوں کے بہت سے مال اسباب لے کر آ رہا تھا۔
3216
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تیار کیا اور تین سو دس سے کچھ اوپر لوگوں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے چلے اور سمندر کے کنارے کے راستے کی طرف سے بدر کے مقام سے چلے۔ ابوسفیان کو چونکہ آپ کے نکلنے کی خبر پہنچ چکی تھی اس نے اپنا راستہ بدل دیا اور ایک تیز رو قاصد کو مکے دوڑایا۔ وہاں سے قریش قریب ایک ہزار کے لشکر جرار لے کر لوہے میں ڈوبے ہوئے بدر کے میدان میں پہنچ گئے پس یہ دونوں جماعتیں ٹکرا گئیں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح دلوائی اپنا دین بلند کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اسلام کو کفر پر غالب کیا جیسے کہ اب بیان ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔
یہاں مقصد بیان صرف اتنا ہی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پتہ چلا کہ مشرکین کی جنگی مہم مکے سے آ رہی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ سے بذریعہ وحی کے وعدہ کیا کہ یا تو قافلہ آپ کو ملے گا یا لشکر کفار۔ اکثر مسلمان جی سے چاہتے تھے کہ قافلہ مل جائے کیونکہ یہ نسبتاً ہلکی چیز تھی لیکن اللہ کا ارادہ تھا کہ اسی وقت بغیر زیادہ تیاری اور اہتمام کے اور آپس کے قول قرار کے مڈبھیڑ ہو جائے اور حق وباطل کی تمیز ہو جائے کفار کی ہمت ٹوٹ جائے اور دین حق نکھر آئے۔
تفسیر ابن مردویہ میں ہے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ مدینے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ ابوسفیان کا قافلہ لوٹ رہا ہے تو کیا تم اس کے لیے تیار ہو کہ ہم اس قافلے کی طرف بڑھیں؟ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال غنیمت دلوا دے۔ ہم سب نے تیاری ظاہر کی آپ ہمیں لے کر چلے ایک دن یا دو دن کا سفر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ قریشیوں سے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہیں تمہارے چلنے کا علم ہو گیا ہے اور وہ تم سے لڑنے کیلئے چل پڑے ہیں۔
3217
ہم نے جواب دیا کہ واللہ ہم میں ان سے مقابلے کی طاقت نہیں ہم تو صرف قافلے کے ارادے سے نکلے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی سوال کیا اور ہم نے پھر یہی جواب دیا۔ اب مقداد بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس وقت آپ کو وہ نہ کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تو اور تیرا رب جا کر کافروں سے لڑے، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو ہمیں بڑا ہی رنج ہونے لگا کہ کاش یہی جواب ہم بھی دیتے تو ہمیں مال کے ملنے سے اچھا تھا، پس یہ آیت «كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ»[8-الأنفال:5] اتری۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ بدر کی جانب چلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روحا میں پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ہمیں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ فلاں فلاں جگہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر خطبہ دیا اور یہی فرمایا اب کی مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تیسرے خطبے میں یہی فرمایا اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے دریافت فرما رہے ہیں؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت وبزرگی عنایت فرمائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے نہ میں ان راستوں میں کبھی چلا ہوں اور نہ مجھے اس لشکر کا علم ہے ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ برک غماد تک بھی چڑھائی کریں تو واللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوں گے ہم ان کی طرح نہیں جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہدیا تھا کہ «فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ»[ 5-المائدہ: 24 ] یعنی ” تو اپنے ساتھ اپنے پروردگار کو لے کر چلا جا اور تم دونوں ان سے لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔“
3218
نہیں نہیں بلکہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ آپ کا ساتھ دے ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر حکم کفار سے جہاد کے لیے صدق دل سے تیار ہیں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو آپ کسی کام کو زیر نظر رکھ رکھ نکلے ہوں لیکن اس وقت کوئی اور نیا کام پیش نگاہ ہو تو «بِسْمِ اللَّـهِ» کیجئے، ہم تابعداری سے منہ پھیرنے والے نہیں۔ آپ جس سے چاہیں ناطہٰ توڑ لیجئے اور جس سے چاہیں جوڑ لیجئے جس سے چاہیں عداوت کیجئے اور جس سے چاہیں محبت کیجئے ہم اسی میں آپ کے ساتھ ہیں۔ یا رسول اللہ ہماری جانوں کے ساتھ ہمارے مال بھی حاضر ہیں، آپ کو جس قدر ضرورت ہو لیجئے اور کام میں لگائیے۔ پس سعد کے اس فرمان پر قران کی یہ آیتیں اتری ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15724:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن سے بدر میں جنگ کرنے کی بابت صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور سعد بن عباد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کو کمر بندی کا حکم دے دیا اس وقت بعض مسلمانوں کو یہ ذرا گراں گذرا اس پر یہ آیتیں اتریں۔
پس حق میں جھگڑنے سے مراد جہاد میں اختلاف کرنا ہے اور مشرکوں کے لشکر سے مڈبھیڑ ہونے اور ان کی طرف چلنے کو ناپسند کرنا ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے واضح ہو گیا یعنی یہ امر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بغیر حکم رب العزت کے کوئی حکم نہیں دیتے۔
3219
دوسری تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد مشرک لوگ ہیں جو حق میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ اسلام کا ماننا ان کے نزدیک ایسا ہے جیسے دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں کودنا۔ یہ وصف مشرکوں کے سوا اور کسی کا نہیں اہل کفر کی پہلی علامت یہی ہے ابن زید کا یہ قول وارد کر کے امام ابن جرید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ قول بالکل بے معنی ہے اس لیے کہ اس سے پہلے کا قول آیت «يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ»[ 8-الانفال: 6 ] اہل ایمان کی خبر ہے تو اس سے متصل خبر بھی انہی کی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن اسحاق رحمہ اللہ ہی کا قول اس بارے میں ٹھیک ہے کہ یہ خبر مومنوں کی ہے نہ کہ کافروں کی۔ حق بات یہی ہے جو امام صاحب نے کہی۔ سیاق کلام کی دلالت بھی اسی پر ہے ـ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مسند احمد میں ہے کہ بدر کی لڑائی کی فتح کے بعد بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اب چلئے قافلے کو بھی دبالیں اب کوئی روک نہیں ہے۔ اس وقت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کفار سے قید ہو کر آئے ہوئے زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اونچی آواز سے کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیوں؟ انہوں نے جواب دیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا وہ اللہ نے پورا کیا ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی۔ [سنن ترمذي:3080،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
3220
مسلمانوں کی چاہت تھی کہ لڑائی والے گروہ سے تو مڈبھیڑ نہ ہو البتہ قافلے والے مل جائیں اور اللہ کی چاہت تھی کہ شوکت و شان والی قوت و گھمنڈوالی لڑائی بھڑائی والی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر تمہیں غالب کر کے تمہاری مدد کرے، اپنے دین کو ظاہر کر دے اور اپنے کلمے کو بلند کر دے اور اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر اونچا کر دے پس انجام کی بھلائی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ اپنی عمدہ تدبیر سے تمہیں سنبھال رہا ہے تمہاری مرضی کے خلاف کرتا ہے اور اسی میں تمہاری مصلحت اور بھلائی ہوتی ہے جیسے فرمایا کہ «كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»[2-البقرة:216] ” جہاد تم پر لکھا گیا اور وہ تمہیں ناپسند ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ تمہاری ناپسندیدگی کی چیز میں ہی انجام کے لحاظ سے تمہارے لیے بہتری ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ درحقیقت تمہارے حق میں بری ہو۔“
اب جنگ بدر کا مختصر سا واقعہ بزبان سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سنئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ابوسفیان شام سے مع قافلے کے اور مع اسباب کے آ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو فرمایا کہ چلو ان کا راستہ روکو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہ اسباب تمہیں دلوا دے۔ چونکہ کسی لڑانے والی جماعت سے لڑائی کرنے کا خیال بھی نہ تھا، اس لیے لوگ بغیر کسی خاص تیاری کے جیسے تھے ویسے ہی ہلکے پھلکے نکل کھڑے ہوئے۔
ابوسفیان بھی غافل نہ تھا اس نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے اور آتے جاتوں سے بھی دریافت حال کر رہا تھا ایک قافلے سے اسے معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر تیرے اور تیرے قافلے کی طرف چل پڑے ہیں۔
3221
اس نے ضیغم بن عمرو غفاری کو انعام دے دلا کر اسی وقت قریش مکہ کے پاس یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ تمہارے مال خطرے میں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے اس طرف آ رہے ہیں تمہیں چاہیئے کہ پوری تیاری سے فوراً ہماری مدد کو آؤ اس نے بہت جلد وہاں پہنچ کر خبر دی تو قریشیوں نے زبردست حملے کی تیار کر لی اور نکل کھڑے ہوئے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ذفران وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لشکروں کا سازو سامان سے نکلنا معلوم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور یہ خبر بھی کر دی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر جواب دیا اور بہت اچھا کہا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی معقول جواب دیا۔ پھر مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے انجام دیجئیے ہم جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں اور ہر طرح فرمانبردار ہیں ہم بنو اسرائیل کی طرح نہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب جا کر لڑ لو ہم تماشا دیکھتے ہیں نہیں بلکہ ہمارا یہ قول ہے کہ اللہ کی مدد کے ساتھ چلئے جنگ کیجئے ہم آپکے ساتھ ہیں اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ برک غماد تک یعنی حبشہ کے ملک تک بھی چلیں تو ہم ساتھ سے منہ نہ موڑیں گے اور وہاں پہنچائے اور پہنچے بغیر کسی طرح نہ رہیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہت اچھا کہا اور ان کو بڑی دعائیں دیں لیکن پھر بھی یہی فرماتے رہے کہ لوگو مجھے مشورہ دو میری بات کا جواب دو۔ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انصاریوں کے گروہ سے تھی ایک تو اس لیے کہ گنتی میں یہی زیادہ تھے۔
3222
دوسرے اس لیے بھی کہ عقبہ میں جب انصار نے بیعت کی تھی تو اس بات پر کی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے نکل کر مدینے میں پہنچ جائیں پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جو بھی دشمن آپ پر چڑھائی کر کے آئے ہم اس کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جائیں گے اس میں چونکہ یہ وعدہ نہ تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی پر چڑھ کر جائیں تو بھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اب ان کا ارادہ معلوم کر لیں۔
یہ سمجھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جواب طلب فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی بات ہے تو سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا جانتے ہیں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اسے بھی حق مانتے ہیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سننے اور اس پر عمل کرنے کی بیعت کر چکے ہیں۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم اللہ تعالیٰ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا ہے اسے پورا کیجئے، ہم آپ کی ہمرکابی سے نہ ہٹیں گے۔
3223
اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو اپنا سچا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اگر سمندر کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں گھوڑا ڈال دیں تو ہم بھی بلا تامل اس میں کود پڑیں گے ہم میں سے ایک کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ پائیں گے جسے ذرا سا بھی تامل ہو ہم اس پر بخوشی رضامند ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دشمنوں کے مقابلے پر چھوڑ دیں۔
ہم لڑائیوں میں بہادری کرنے والے مصیبت کے جھیلنے والے اور دشمن کے دل پر سکہ جما دینے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کام دیکھ کر ان شاءاللہ خوش ہوں گے چلئے اللہ کا نام لے کر چڑھائی کیجئے اللہ برکت دے۔ ان کے اس جواب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی مسرور ہوئے اسی وقت کوچ کا حکم دیا کہ چلو اللہ کی برکت پر خوش ہو جاؤ۔ رب مجھ سے وعدہ کر چکا ہے کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت ہمارے ہاتھ لگے گی واللہ میں تو ان لوگوں کے گرنے کی جگہ ابھی یہیں سے گویا اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں۔[تفسیر ابن جریر الطبری:15732]