تفسير ابن كثير



سورۃ الأعراف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنْتُمْ بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ[123] لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ[124] قَالُوا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ[125] وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ[126]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] فرعون نے کہا تم اس پر اس سے پہلے ایمان لے آئے کہ میں تمھیں اجازت دوں، بے شک یہ تو ایک چال ہے جو تم نے اس شہر میں چلی ہے، تاکہ تم اس سے اس کے رہنے والوں کو نکال دو، سو تم جلد جان لو گے۔ [123] یقینا میں ضرور تمھارے ہاتھ اور تمھارے پائوں مخالف سمت سے بری طرح کاٹوں گا، پھر یقینا تم سب کو ضرور بری طرح سولی دوں گا۔ [124] انھوں نے کہا یقینا ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ [125] اور تو ہم سے اس کے سوا کس چیز کا بدلہ لے رہا ہے کہ ہم اپنے رب کی آیات پر ایمان لے آئے، جب وہ ہمارے پاس آئیں، اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں اس حال میں فوت کر کہ فرماں بردار ہوں۔ [126]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] فرعون کہنے لگا کہ تم موسیٰ پر ایمان ﻻئے ہو بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں؟ بےشک یہ سازش تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں تاکہ تم سب اس شہر سے یہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو۔ سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے [123] میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا۔ پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا [124] انہوں نے جواب دیا کہ ہم (مر کر) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے [125] اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے، جب وه ہمارے پاس آئے۔ اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال [126]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] فرعون نے کہا کہ پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے؟ بےشک یہ فریب ہے جو تم نے مل کر شہر میں کیا ہے تاکہ اہلِ شہر کو یہاں سے نکال دو۔ سو عنقریب (اس کا نتیجہ) معلوم کرلو گے [123] میں (پہلے تو) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دوں گا پھر تم سب کو سولی چڑھوا دوں گا [124] وہ بولے کہ ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں [125] اور اس کے سوا تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔ اے پروردگار ہم پر صبرواستقامت کے دہانے کھول دے اور ہمیں (ماریو تو) مسلمان ہی ماریو [126]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 123، 124، 125، 126،

فرعون سیخ پا ہو گیا ٭٭

جادوگروں کے اس طرح مجمع عام میں ہار جانے، پھر اس طرح سب کے سامنے بےدھڑک اسلام قبول کر لینے سے فرعون آگ بگولا ہو گیا اور اس اثر کو روکنے کے لئے سب سے پہلے تو ان مسلمانوں سے کہنے لگا: تمہارا بھید مجھ پر کھل گیا ہے۔ تم سب مع موسیٰ کے ایک ہی ہو۔ یہ تمہارا استاد ہے، تم اس کے شاگرد ہو۔ [20-طه:71] ‏‏‏‏

تم نے آپس میں پہلے یہ طے کیا کہ تو پہلے چلا جا، پھر ہم آ جائیں گے۔ اس طرح میدان قائم ہو۔ ہم مصنوعی لڑائی لڑ کر ہار جائیں گے اور اس طرح اس ملک کے اصلی باشندوں کو یہاں سے نکال باہر کریں گے۔

فرعون کے اس جھوٹ پر اللہ کی مار ہے۔ کوئی بےوقوف بھی اس کے اس بیان کو صحیح نہیں سمجھ سکتا۔ سب کو معلوم تھا موسیٰ علیہ السلام اپنا بچپن فرعون کے محل میں گزارتے ہیں، اس کے بعد مدین میں عمر کا ایک حصہ بسر کرتے ہیں۔ مدین سے سیدھے مصر کو پہنچ کر اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں اور معجزے دکھاتے ہیں جن سے عاجز آ کر فرعون اپنے جادوگروں کو جمع کرتا ہے۔ وہ براہ راست اس کی سپاہ کے ساتھ اس کے دربار میں پیش ہوتے ہیں۔ انعام و اکرام کے لالچ سے ان کے دل بڑھائے جاتے ہیں۔ وہ اپنی فتح مندی کا یقین دلاتے ہیں، فرعون انہیں اپنی رضا مندی کا یقین دلاتا ہے۔ خوب تیاریاں کر کے میدان جماتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام ان میں سے ایک سے بھی واقف نہیں، کبھی نہ کسی کو دیکھا ہے، نہ سنا ہے، نہ ملے ہیں، نہ جانتے ہیں۔ لیکن وزیرے چنیں شہر یارے چناں۔

وہاں تو ان لوگوں کا مجمع تھا کہ فرعون نے جب کہا کہ میں رب اعلیٰ ہوں تو سب نے گردنیں جھکا کر کہا: بیشک حضور آپ خدا ہیں تو ایسے جہالت کے پلندوں سے کوئی بات منوا لینی کیا مشکل تھی؟ اس کے رعب میں آ کر ایمان لانے کا ارادہ بدلا اور سمجھ بیٹھے کہ واقعی فرعون ٹھیک کہہ رہا ہے۔
3030

ایک قول یہ بھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کے امیر سے فرمایا کہ اگر میں غالب آ جاؤں تو کیا تو مجھ پر ایمان لائے گا؟ اس نے کہا: آج میدان میں ہماری جانب سے جو جادو پیش کیا جائے گا، اس کا جواب ساری مخلوق کے پاس نہیں۔ تو اگر اس پر غالب آ گیا تو مجھے بیشک یقین ہو جائے گا کہ وہ جادو نہیں معجزہ ہے۔ یہ گفتگو فرعون کے کانوں تک پہنچی، اسے یہ دوہرا رہا ہے کہ تم نے ملی بھگت کر لی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:24/6] ‏‏‏‏

اس طرح لوگوں کے دل حقانیت سے ہٹا کر انہیں بدظن کرنے کیلئے دوسری چال چلتا ہے اور کہتا ہے کہ تم اپنے اتفاق اور پوشیدہ جال سے جاہتے یہ ہو کہ ہماری دولت و شوکت چھین لو، ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو۔ اس طرح اپنی قوم کے دل ان کی طرف سے پھیر کر پھر انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے چوتھی چال چلتا ہے کہ ان نومسلموں سے کہتا ہے کہ دیکھو تو تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ سو میں کتنے بیس ہوتے ہیں۔ مجھے بھی قسم ہے جو تمہارے ہاتھ پاؤں نہ کٹوائے اور وہ بھی الٹی طرح یعنی پہلے اگر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے تو پھر بایاں پاؤں اور اگر پہلے سیدھا پاؤں کاٹا گیا تو پھر الٹا ہاتھ۔ اسی طرح بےدست و پا کر کےکھجوروں کی شاخوں پر لٹکا دوں گا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ظالم بادشاہ سے پہلے ان دونوں سزاؤں کا رواج نہ تھا۔ یہ دھمکی دے کر وہ سمجھتا تھا کہ اب یہ نرم پڑ جائیں گے لیکن وہ تو ایمان میں اور پختہ ہو گئے۔

بالاتفاق جواب دیتے ہیں کہ اچھا ڈرایا؟
3031

یہاں سے تو واپس اللہ کے پاس جانا ہی ہے۔ اسی کے قبضہ و قدرت میں سب کچھ ہے۔ آج اگر تیری سزاؤں سے بچ گئے تو کیا اللہ کے ہاں کی سزائیں بھی معاف ہو جائیں گی؟ ہمارے نزدیک تو دنیا کی سزائیں بھگت لینا بہ نسبت آخرت کے عذاب کے بھگتنے کے بہت ہی آسان ہے۔ تو ہم سے اللہ کے نبی کا مقابلہ کرا چکا ہے لیکن اب ہم پر حق واضح ہو گیا۔ ہم اس پر ایمان لے آئے، تو تو چڑ رہا ہے۔

کہنے کو تو یہ سب کچھ کہہ گئے لیکن خیال آیا کہ کہیں ہمارا قدم پھسل نہ جائے۔ اس لیے دعا میں دل کھول دیا کہ اے اللہ! ہمیں صبر عطا فرما، ثابت قدمی دے، ہمیں اسلام پر ہی موت دے، تیرے نبی موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہوں۔ ایسا نہ ہو، اس ظالم کے رعب میں یا اس کی دھمکیوں میں آ جائیں یا سزاؤں سے ڈر جائیں یا ان کے برداشت کی تاب نہ لائیں۔

ان دعاؤں کے بعد دل بڑھ جاتے ہیں، ہمتیں دگنی ہو جاتی ہیں۔ فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں: ” تجھے جو کرنا ہے اس میں کمی نہ کر، کسر اٹھا نہ رکھ۔ جو جی میں ہے، کر گزر۔ تو دنیا ہی میں سزائیں دے سکتا ہے، ہم صبر کر لیں گے۔ کیا عجب کہ ہمارے ایمان کی وجہ سے اللہ ہماری خطائیں معاف فرمائے۔ خصوصاً ابھی کی یہ خطا کہ ہم نے جھوٹ سے سچ کا مقابلہ کیا۔ بیشک اللہ بہتر ہے اور زیادہ باقی۔ گناہگاروں کے لیے اس کے ہاں جہنم کی سزا ہے۔ جہاں نہ موت آئے، نہ کارآمد زندگی ہو۔ اور مومنوں کے لیے اس کے پاس جنتیں ہیں جہاں بڑے بلند درجے ہیں۔ “ [20-طه:72-75] ‏‏‏‏

سبحان اللہ! یہ لوگ دن کے ابتدائی حصے میں کافر اور جادوگر تھے اور اسی دن کے آخری حصے میں مومن بلکہ نیک شہید تھے۔
3032

3033



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.