فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ فَكَيْفَ آسَى عَلَى قَوْمٍ كَافِرِينَ[93]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر وہ ان سے واپس لوٹا اور اس نے کہا اے میری قوم! بلاشبہ یقینا میں نے تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور میں نے تمھاری خیرخواہی کی، تو میں نہ ماننے والے لوگوں پر کیسے غم کروں۔ [93]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منھ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں [93]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو شعیب ان میں سے نکل آئے اور کہا کہ بھائیو میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور تمہاری خیرخواہی کی تھی۔ تو میں کافروں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج وغم کیوں کروں [93]۔
........................................
قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ چکنے کے بعد شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے فرمایا کہ میں سبکدوش ہو چکا ہوں۔ اللہ کا پیغام سنا چکا، سمجھا بجھا چکا، غم خواری، ہمدردی کر چکا۔ لیکن تم کافر کے کافر ہی رہے۔ اب مجھے کیا پڑی کہ تمہارے افسوس میں اپنی جان ہلکان کروں؟