تفسير ابن كثير



سورۃ الأعراف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ[90] فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ[91] الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِينَ[92]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جنھوں نے کفر کیا بے شک اگر تم شعیب کے پیچھے چلے تو بے شک تم اس وقت ضرور خسارہ اٹھانے والے ہو۔ [90] تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا، تو انھوں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے گھر میں گرے پڑے تھے۔ [91] وہ لوگ جنھوں نے شعیب کو جھٹلایا گویا وہ اس میں بسے ہی نہ تھے، وہ لوگ جنھوں نے شعیب کو جھٹلایا وہی خسارہ اٹھانے والے تھے۔ [92]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ اگر تم شعیب (علیہ السلام) کی راه پر چلو گے تو بےشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے [90] پس ان کو زلزلے نے آپکڑا سو وه اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے ره گئے [91] جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی وہی خسارے میں پڑ گئے [92]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے، کہنے لگے (بھائیو) اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بےشک تم خسارے میں پڑگئے [90] تو ان کو بھونچال نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے [91] (یہ لوگ) جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے (غرض) جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑگئے [92]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 90، 91، 92،

قوم شعیب کا شوق تباہی پورا ہوا ٭٭

اس قوم کی سرکشی، بد باطنی ملاحظہ ہو کر مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کے لئے انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ شعیب علیہ السلام کی اطاعت تمہیں غارت کر دے گی اور تم بڑے نقصان میں اتر جاؤ گے۔

ان مومنوں کے دلوں کو ڈرانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسمانی عذاب بصورت زلزلہ زمین سے آیا اور انہیں سچ مچ لرزا دیا اور غارت و برباد ہو کر خود ہی نقصان میں پھنس گئے۔ یہاں اس طرح بیان ہوا۔

سورۃ ہود میں بیان ہے کہ آسمانی کڑاکے کی آواز سے یہ ہلاک کئے گئے۔ [11-هود:94] ‏‏‏‏

یہ اس لیے وہاں بیان ہے کہ انہوں نے اپنے وطن سے نکل جانے کی ڈانٹ ایمان داروں کو دی تھی تو آسمانی ڈانٹ کی آواز نے ان کی آواز پست کر دی اور ہمیشہ کے لئے یہ خاموش کر دیئے گئے۔

سورۃ الشعراء میں بیان ہے کہ بادل ان پر عذاب بن کر برسا۔ کیونکہ وہیں ذکر ہے کہ خود انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام سے کہا تھا کہ ” اگر سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو الخ۔ “ [26-الشعراء:187] ‏‏‏‏

واقعہ یہ ہے کہ یہ تینوں عذاب ان پر ایک ساتھ آئے۔ ادھر ابر اٹھا جس سے شعلہ باری ہونے لگی، آگ برسنے لگی۔ ادھر تند اور سخت کڑاکے کی آواز آئی، ادھر زمین پر زلزلہ آیا۔ نیچے اوپر کے عذابوں سے دیکھتے ہی دیکھتے تہ و بالا کر دیئے گئے، اپنی اپنی جگہ ڈھیر ہو گئے۔

یا وہ وقت تھا کہ یہاں سے مومنوں کو نکالنا چاہتے تھے یا یہ وقت ہے کہ یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کسی وقت یہاں یہ لوگ آباد بھی تھے، مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ تم نقصان میں اترو گے یا یہ ہے کہ خود برباد ہو گئے۔
2994



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.