أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ[63] فَكَذَّبُوهُ فَأَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ[64]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور کیا تم نے عجیب سمجھا کہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک آدمی پر ایک عظیم الشان نصیحت آئی، تاکہ وہ تمھیں ڈرائے اور تاکہ تم بچ جائو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ [63] پھر انھوں نے اسے جھٹلا دیا تو ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو کشتی میں اس کے ساتھ تھے، بچا لیا اور ان لوگوں کو غرق کر دیا جنھوں نے ہماری آیا ت کو جھٹلایا۔ یقینا وہ اندھے لوگ تھے۔ [64]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت، جو تمہاری ہی جنس کا ہے، کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وه شخص تم کو ڈرائے اور تاکہ تم ڈرجاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے [63] سو وه لوگ ان کی تکذیب ہی کرتے رہے تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور ان کو جو ان کےساتھ کشتی میں تھے، بچالیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے غرق کردیا۔ بے شک وه لوگ اندھے ہورہے تھے [64]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے [63] مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی۔ تو ہم نے نوح کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کو تو بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں غرق کر دیا۔ کچھ شک نہیں کہ وہ اندھے لوگ تھے [64]۔
........................................
نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر اپنی وحی نازل فرمائے اور اسے اپنی پیغمبری سے ممتاز کر دے تاکہ وہ تمہیں ہو شیار کر دے۔ پھر تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پا لو اور تم پر گو نا گوں رحمتیں نازل ہوں۔
نوح علیہ السلام کی ان دلیلوں اور وعظوں سے ان سنگدلوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ یہ انہیں جھٹلاتے رہے، مخالفت سے باز نہ آئے، ایمان قبول نہ کیا۔ صرف چند لوگ سنور گئے۔
پس ہم نے ان لوگوں کو اپنے نبی علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں بٹھا کر طوفان سے نجات دی اور باقی لوگوں کو تہ آب غرق کر دیا۔ جیسے سورۃ نوح میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث غرق کر دیئے گئے۔ پھر دوزخ میں ڈال دیئے گئے اور کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی کسی قسم کی مدد کرتا۔ یہ لوگ حق سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھے، نابینا ہو گئے تھے، راہ حق انہیں آخر تک سجھائی نہ دی۔ پس اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کو، اپنے دوستوں کو نجات دی۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کو تہ آب برباد کر دیا۔
جیسے اس کا وعدہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی ضرور مدد فرمایا کرتے ہیں، دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ ان کی امداد کرتا ہے۔ ان پرہیزگاروں کے لئے ہی عافیت ہے۔ انجام کار غالب اور مظفر و منصور یہی رہتے ہیں جیسے کہ نوح علیہ السلام آخر کار غالب رہے اور کفار ناکام و نامراد ہوئے۔ یہ لوگ تنگ پکڑ میں آ گئے اور غارت کر دئیے گئے۔ صرف اللہ کے رسول علیہ السلام کے اسی (۸۰) آدمیوں نے نجات پائی۔ ان ہی میں ایک صاحب جرہم نامی تھے جن کی زبان عربی تھی۔ ابن ابی حاتم میں یہ روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متصلاً مروی ہے۔