● جامع الترمذي | 1122 | المتعة في أول الإسلام كان الرجل يقدم البلدة ليس له بها معرفة فيتزوج المرأة بقدر ما يرى أنه يقيم فتحفظ له متاعه وتصلح له شيئه حتى إذا نزلت الآية إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم قال ابن عباس فكل فرج سوى هذين فهو حرام «تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : 6449) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ موسیٰ بن عبیدہ ‘‘ ضعیف ہیں، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہںی: اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے، فتح الباری 9/148، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں ابو جمرہ کہتے ہیں: ’’ میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت سنن الدارمی/ تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بنا پر تھا یا اس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا: ہاں، ایسا ہی ہے ‘‘ بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہو گئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے) ۔»قال الشيخ زبير علي زئي: (1122) إسناده ضعيف ¤ موسي بن عبيده: ضعيف ولا سيما في عبد الله بن دينار وكان عابدًا (تق:6989) |