● سنن أبي داود | 457 | ائتوه فصلوا فيه إن لم تأتوه وتصلوا فيه فابعثوا بزيت يسرج في قناديله « سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 196 (1407)، (تحفة الأشراف: 18087)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/463) (ضعیف) » (زیاد اور میمونہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن ابن ماجہ کی سند میں یہ واسطہ عثمان بن أبی سودة ہے، اس حدیث کی تصحیح بوصیری نے کی ہے، اور نووی نے تحسین کی ہے، البانی نے صحیح أبی داود (68) میں اس کی تصحیح کی ہے، اور اخیر خبر میں نکارت کا ذکر کیا ہے، ناشر نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ البانی صاحب نے بعد میں صحیح أبی داود سے ضعیف أبی داود میں منتقل کر دیا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اس پر اپنے فیصلے کو تبدیل کریں، جبکہ آخری حدیث میں ذہبی سے نکارت کی وجہ بیان کر دی ہے، کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، تو حجاز سے اس کو وہاں بھیجنے کا کیا مطلب، اور یہ کہ یہ تیل نصارے کے لئے وہ بھیجیں کہ وہ صلیب و تمثال پر اس کو جلائیں، یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے )قال الشيخ زبير علي زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ابن ماجه (1407)¤ زياد بن أبي سودة: رواه عن عثمان بن أبي سودة ولا يعرف لعثمان سماع من ميمونة رضي اللّٰه عنها،انظر المھذب في اختصار السنن الكبير للذھبي (2/ 402 ح 3133) فالسند معلل بالإنقطاع والحديث ضعفه الجمهور وقال الذھبي: ’’وھذا خبر منكر‘‘¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 30 |
● سنن ابن ماجه | 1407 | أرض المحشر والمنشر ائتوه فصلوا فيه فإن صلاة فيه كألف صلاة في غيره إن لم أستطع أن أتحمل إليه قال فتهدي له زيتا يسرج فيه فمن فعل ذلك فهو كمن أتاه « سنن ابی داود/الصلاة 14 ( 457 ) ، ( تحفة الأشراف : 18087 ، ومصباح الزجاجة : 497 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 6/463 ) ( منکر ) » ( بوصیری نے کہا کہ بعض حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے ، شیخ البانی نے اس حدیث کو پہلے ( صحیح ابو داود 68 ) میں رکھا تھا ، بعد میں اسے ضعیف ابی داود میں رکھ دیا ، ابوداود کی روایت میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا ذکر نہیں ہے ، وجہ نکارت یہ ہے کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے ، حجاز سے اسے بیت المقدس بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟ نیز صحیح احادیث میں مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں ہے ، جب کہ بیت المقدس کے بارے میں یہ ثواب صحاح میں نہیں وارد ہوا ہے )قال الشيخ زبير علي زئي: ضعيف¤ ضعيف¤ سنن أبي داود (457)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 427 |