301- وعن عبد الله بن عبد الله بن عتيك بن الحارث ابن عتيك وهو جد عبد الله ابو امه اخبره ان جابر بن عتيك اخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء يعود عبد الله بن ثابت فوجده قد غلب عليه، فصاح به فلم يجبه فاسترجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: ”غلبنا عليك يا ابا الربيع“، فصاح النسوة وبكين فجعل ابن عتيك يسكتهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”دعهن فإذا وجب فلا تبكين باكية.“ فقالوا: يا رسول الله وما الوجوب؟ قال: ”إذا مات“ فقالت ابنته، والله، إن كنت لارجو ان تكون شهيدا، فإنك قد كنت قضيت جهازك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن الله قد اوقع اجره على قدر نيته وما تعدون الشهادة؟ قالوا: القتل فى سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الشهادة سبع سوى القتل فى سبيل الله: المطعون شهيد، والغريق شهيد، وصاحب ذات الجنب شهيد، والمبطون شهيد، وصاحب الحريق شهيد، والذي يموت تحت الهدم شهيد، والمراة تموت بجمع شهيدة.301- وعن عبد الله بن عبد الله بن عتيك بن الحارث ابن عتيك وهو جد عبد الله أبو أمه أخبره أن جابر بن عتيك أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء يعود عبد الله بن ثابت فوجده قد غلب عليه، فصاح به فلم يجبه فاسترجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: ”غلبنا عليك يا أبا الربيع“، فصاح النسوة وبكين فجعل ابن عتيك يسكتهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”دعهن فإذا وجب فلا تبكين باكية.“ فقالوا: يا رسول الله وما الوجوب؟ قال: ”إذا مات“ فقالت ابنته، والله، إن كنت لأرجو أن تكون شهيدا، فإنك قد كنت قضيت جهازك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن الله قد أوقع أجره على قدر نيته وما تعدون الشهادة؟ قالوا: القتل فى سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الشهادة سبع سوى القتل فى سبيل الله: المطعون شهيد، والغريق شهيد، وصاحب ذات الجنب شهيد، والمبطون شهيد، وصاحب الحريق شهيد، والذي يموت تحت الهدم شهيد، والمرأة تموت بجمع شهيدة.
سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ تکلیف کی وجہ سے مغلوب (بے ہوش) ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی تو انہوں (عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ) نے کوئی جواب نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «انا لله وانااليه راجعون» پڑھا اور فرمایا: ”اے ابوالربیع! ہم تمہارے بارے میں بے بس ہیں۔“ تو عورتوں نے تیز باتیں کرنا اور رونا شروع کر دیا۔ (جابر) ابن عتیک رضی اللہ عنہ انہیں چپ کرانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو۔ جب وہ فوت ہو جائیں تو پھر کوئی بھی رونے والی (اونچی آواز سے) نہ روئے۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! «وجوب» کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب فوت ہو جائیں۔“ پھر ان کی بیٹی نے (اپنے باپ کو پکارتے ہوئے) کہا: اللہ کی قسم! میں یہ سمجھتی ہوں کہ آپ تو شہید ہونا چاہتے تھے اور آپ نے جہاد پر جانے کے لئے تیاری بھی کر رکھی تھی! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے ان کی نیت کے مطابق ان کا اجر بلند فرمایا ہے اور تم شہادت کسے سمجھتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے راستے میں قتل ہو جانا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں قتل ہو جانے کے سوا بھی اور سات شہادتیں ہیں: طاعون میں مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، ذات الجنب (پسلی کی ایک بیماری) میں مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، چھت اور دیوار کے نیچے دب کر مر جانے والا شہید ہے اور بچہ جننے کی حالت میں مر جانے والی عورت شہید ہے۔“
تخریج الحدیث: «301- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 233/1، 234 ح 555، ك 16 ب 12 ح 36 نحو المعنيٰ) التمهيد 202/19، الاستذكار: 509، و أخرجه أبوداود (3111) و النسائي (13/4 ح 1874) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (الموارد: 1616، الاحسان: 3179، 3180/3189، 3190) والحاكم (352/1، 353) ووافقه الذهبي.»