470- وبه: انها قالت: جاءت بريرة فقالت: إني كاتبت اهلي على تسع اواق، فى كل عام اوقية، فاعينيني؛ فقالت عائشة: إن احب اهلك ان اعدها لهم ويكون لي ولاؤك فعلت فذهبت بريرة إلى اهلها فقالت لهم ذلك، فابوا عليها، فجاءت من عند اهلها ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، فقالت: إني قد عرضت ذلك عليهم فابوا على إلا ان يكون الولاء لهم. فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالها فاخبرته عائشة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”خذيها واشترطي الولاء لهم فإنما الولاء لمن اعتق“ ففعلت عائشة. ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الناس فحمد الله واثنى عليه ثم قال: ”اما بعد فما بال قوم يشترطون شروطا ليست فى كتاب الله ما كان من شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل وإن كان مئة شرط، قضاء الله احق، وشرط الله اوثق، وإنما الولاء لمن اعتق.“470- وبه: أنها قالت: جاءت بريرة فقالت: إني كاتبت أهلي على تسع أواق، فى كل عام أوقية، فأعينيني؛ فقالت عائشة: إن أحب أهلك أن أعدها لهم ويكون لي ولاؤك فعلت فذهبت بريرة إلى أهلها فقالت لهم ذلك، فأبوا عليها، فجاءت من عند أهلها ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، فقالت: إني قد عرضت ذلك عليهم فأبوا على إلا أن يكون الولاء لهم. فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألها فأخبرته عائشة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”خذيها واشترطي الولاء لهم فإنما الولاء لمن أعتق“ ففعلت عائشة. ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الناس فحمد الله واثنى عليه ثم قال: ”أما بعد فما بال قوم يشترطون شروطا ليست فى كتاب الله ما كان من شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل وإن كان مئة شرط، قضاء الله أحق، وشرط الله أوثق، وإنما الولاء لمن أعتق.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا آئی تو کہا: میں نے اپنی آزادی کے لئے اپنے مالکوں سے نو (9) اوقیہ چاندی پر تحریری معاہدہ کر لیا ہے، میں انہیں ہر سال ایک اوقیہ دوں گی، آپ اس سلسلے میں میری امداد کریں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر تمہارے مالک اس پر راضی ہوں تو میں انہیں نقد ادا کر دوں لیکن رشتہ ولاء میرا ہو گا۔ بریرہ اپنے مالکوں کے پاس گئی تو انہیں یہ بات بتائی۔ انہوں نے انکار کر دیا تو وہ اپنے مالکوں سے (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس) آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بھی وہاں) بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا: میں نے انہیں یہ بات کہی ہے مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے (اور کہا) کہ رشتہ ولایت انہی کا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو پوچھا: (کیا بات ہے؟) پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو اور ان کا رشتہ ولایت مان لو کیونکہ رشتہ ولایت تو اسی کا ہو گا جو آزاد کرتا ہے۔“ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی طرح کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہو گئے تو حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اما بعد، کیا وجہ ہے کہ لوگ ایسی شرطیں مقرر کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے اگرچہ وہ ایک سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ سب سے زیادہ برحق ہے اور اللہ کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے اور رشتہ ولاء تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «470- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 780/2، 781 ح 1559، ك 38 ب 10 ح 17) التمهيد 160/22، 161، الاستذكار: 1488، و أخرجه البخاري (2168، 2729) من حديث مالك به، ورواه مسلم (1445/7) من حديث هشام بن عروة به.»