63- مالك عن ابن شهاب عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل عن عبد الله بن عباس: ان عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه امراء الاجناد ابو عبيدة ابن الجراح واصحابه فاخبروه ان الوباء قد وقع بالشام. قال ابن عباس: فقال عمر: ادع لي المهاجرين الاولين، فدعاهم فاستشارهم واخبرهم ان الوباء قد وقع بالشام فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لامر ولا نرى ان ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى ان تقدمهم على هذا الوباء. فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي الانصار، فدعوهم له فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني. ثم قال: ادع لي من كان ههنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح، فدعوهم فلم يختلف عليه منهم رجلان، فقالوا: نرى ان ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء. فنادى عمر فى الناس: إني مصبح على ظهر فاصبحوا عليه، فقال ابو عبيدة ابن الجراح: افرارا من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا ابا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، ارايت لو كانت لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والاخرى جدبة، اليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله. قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا فى بعض حاجته، فقال: إن عندي من هذا علما. سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه.“قال: فحمد الله عمر ثم انصرف.63- مالك عن ابن شهاب عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل عن عبد الله بن عباس: أن عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه أمراء الأجناد أبو عبيدة ابن الجراح وأصحابه فأخبروه أن الوباء قد وقع بالشام. قال ابن عباس: فقال عمر: ادع لي المهاجرين الأولين، فدعاهم فاستشارهم وأخبرهم أن الوباء قد وقع بالشام فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لأمر ولا نرى أن ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى أن تقدمهم على هذا الوباء. فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي الأنصار، فدعوهم له فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني. ثم قال: ادع لي من كان ههنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح، فدعوهم فلم يختلف عليه منهم رجلان، فقالوا: نرى أن ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء. فنادى عمر فى الناس: إني مصبح على ظهر فأصبحوا عليه، فقال أبو عبيدة ابن الجراح: أفرارا من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، أرأيت لو كانت لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والأخرى جدبة، أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله. قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا فى بعض حاجته، فقال: إن عندي من هذا علما. سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه.“قال: فحمد الله عمر ثم انصرف.
سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف جہاد کے لیے نکلے، جب آپ سَرغ (وادی تبوک کے قریب ایک مقام) پہنچے تو آپ کے فوجی امراء (جو کہ اردن، حمص، دمشق، فلسطین اور قنسرین پر مقر ر تھے) ابوعبیدبن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپ کے پاس آئے اور بتایا کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیلی ہوئی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس مہاجرین اولین کو بلاؤ۔ آپ نے انہیں بلا کر ان سے مشورہ کیا اور بتایا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو ان کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ بعض نے کہا: آپ ایک کام کے لیے گھر سے نکلے ہیں اور ہمارے خیال میں آپ کو اسے چھوڑ کر واپس نہیں جانا چاہیے۔ بعض نے کہا: آپ کے ساتھ السابقون الاولون باقی رہنے والے صحابہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ ہیں اور ہمارا یہ خیال ہے کہ آپ انہیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں۔ پھر آپ نے کہا: میرے پاس انصاریوں کو بلاؤ۔ پھر آپ نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی مہاجرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی طرح آپس میں اختلاف کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی کہا: آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں۔ پھر انہوں نے فرمایا: میرے پاس مہاجرین فتح مکہ کے بوڑھے قریشیوں کو لاؤ۔ پھر انہیں بلایا گیا تو ان میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ جائیں اور انھیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا: میں صبح (واپسی کے لیے) سواری کی پیٹھ پر ہوں گا اور تم بھی اپنی سواریوں پر سوار ہو جانا۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ اﷲ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوعبید! اگر تمہارے علاوہ کوئی اور یہ کہتا تو جی ہاں! ہم اﷲ کی تقدیر سے اﷲ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں پھر تم دو وادیوں کے پاس جاؤ، ایک سرسبز و شاداب ہو اور دوسری خشک و خراب ہو تو تم کہاں جاؤ گے؟ اگر تم اونٹوں کو سرسبز و شاداب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو اور اگر خشک و خراب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو اپنے کسی کام سے لشکر سے غیرحاضر تھے تشریف لائے تو صحابہ کا اختلاف معلوم ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا: میرے پاس اس کے بارے میں علم موجود ہے۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم اس وبا کے بارے میں سنو کہ کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی ایسے علاقے میں وبا پھیل جائے جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو عمر رضی اللہ عنہ نے اﷲ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور واپس لوٹ گئے۔
تخریج الحدیث: «63- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 894/2 - 896 ح 1720ك 45 ب 7 ح 22، وعنده: فدعوتهم بدل فدعوهم) التمهيد 361/8-363، الاستذكار: 1652، و أخرجه البخاري (5729) مسلم (2219) من حديث مالك به.»