274- وعن صالح بن كيسان عن عبيد الله بن عبد الله عن زيد بن خالد الجهني انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية فى إثر سماء كانت من الليل، فلما انصرف اقبل على الناس فقال: ”هل تدرون ماذا قال ربكم؟“ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: ”اصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فاما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، واما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب“.274- وعن صالح بن كيسان عن عبيد الله بن عبد الله عن زيد بن خالد الجهني أنه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية فى إثر سماء كانت من الليل، فلما انصرف أقبل على الناس فقال: ”هل تدرون ماذا قال ربكم؟“ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: ”أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، وأما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب“.
سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”کیا تمہیں پتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ فرماتا ہے:) میرے بندوں میں سے کچھ بندوں نے صبح اس حال میں کی ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر۔ جو شخص کہتا ہے کہ اللہ کے فضل اور رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص مجھ پر ایمان لانے والا (مومن) ہے اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے۔ اور جو کہتا ہے کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص میرا انکار کرنے والا اور ستاروں پر ایمان لانے والا ہے۔“
تخریج الحدیث: «274- متفق عليه، الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 192/1 ح 452، ك 13 ب 3 ح 4) التمهيد 283/16، الاستذكار: 421 و أخرجه البخاري (846) مسلم (71) من حديث مالك به. من رواية يحيي بن يحيي.»