حارث بن عبداللہ بن اوس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے اس گھر (بیت اللہ) کا حج یا عمرہ کیا تو چاہیئے کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو۔ تو ان سے عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم اپنے ہاتھوں کے بل زمین پر گرو یعنی ہلاک ہو، تم نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور ہمیں نہیں بتائی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حارث بن عبداللہ بن اوس رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، اسی طرح دوسرے اور لوگوں نے بھی حجاج بن ارطاۃ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اس سند کے بعض حصہ کے سلسلہ میں حجاج سے اختلاف کیا گیا ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 3278) وانظر مسند احمد (3/416-417) (منکر) (اس لفظ سے منکر ہے، لیکن اس کا معنی دوسرے طرق سے صحیح ہے، اور ”أواعتمر“ کا لفظ ثابت نہیں ہے، سند میں ”عبدالرحمن بن بیلمانی ضعیف ہیں، اور حجاج بن ارطاة مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طواف وداع واجب ہے یہی اکثر علماء کا قول ہے، وہ اس کے ترک سے دم کو لازم قرار دیتے ہیں، امام مالک، داود اور ابن المنذر کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اور اس کے ترک سے کوئی چیز لازم نہیں آتی۔
قال الشيخ الألباني: منكر بهذا اللفظ، و، الصحيحة معناه دون قوله: " أو اعتمر "، صحيح أبي داود (1749)، الضعيفة (4585) // عندنا برقم (1763 / 2002)، ضعيف الجامع الصغير (5555) //
قال الشيخ زبير على زئي: (946) إسناده ضعيف الحجاج بن أرطاة ضعيف (تقدم:527) وحديث أبى داود (2004) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك، عن جابر وهو: ابن يزيد الجعفي، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " حضت فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقضي المناسك كلها إلا الطواف بالبيت ". قال ابو عيسى: العمل على هذا الحديث عند اهل العلم ان الحائض تقضي المناسك كلها ما خلا الطواف بالبيت، وقد روي هذا الحديث عن عائشة من غير هذا الوجه ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ جَابِرٍ وَهُوَ: ابْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " حِضْتُ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْضِيَ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: الْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا مَا خَلَا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس طریق کے علاوہ سے بھی عائشہ سے مروی ہے۔ ۲- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ حائضہ خانہ کعبہ کے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرے گی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16013) (صحیح) (سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحیض 7 (305)، والحج 33 (1506)، و81 (1650)، والعمرة 9 (1788)، والأضاحي 3 (5548)، و10 (5559)، صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن ابی داود/ المناسک 23 (1782)، سنن النسائی/الطہارة 183 (291)، والحیض 1 (349)، والجہاد 5 (2742)، سنن ابن ماجہ/المناسک 36 (2963)، سنن الدارمی/المناسک 62 (1945) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔»
وضاحت: ۱؎: بخاری و مسلم کی روایت میں ہے «أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت» یعنی حج کا تلبیہ پکارو اور وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے۔