(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا عبد الله بن الاجلح، عن إسماعيل بن مسلم، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: " صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى الظهر والعصر والمغرب والعشاء والفجر ثم غدا إلى عرفات ". قال ابو عيسى: وإسماعيل بن مسلم قد تكلموا فيه من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ غَدَا إِلَى عَرَفَاتٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ قَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ ۱؎ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پڑھائی ۲؎ پھر آپ صبح ۳؎ ہی عرفات کے لیے روانہ ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسماعیل بن مسلم پر ان کے حافظے کے تعلق سے لوگوں نے کلام کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحج 51 (3004) (تحفة الأشراف: 5881) (صحیح) (سند میں اسماعیل بن مسلم کے اندر ائمہ کا کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: منیٰ: مکہ اور مزدلفہ کے درمیان کئی وادیوں پر مشتمل ایک کھلے میدان کا نام ہے، مشرقی سمت میں اس کی حد وہ نشیبی وادی ہے جو وادی محسّر سے اترتے وقت پڑتی ہے اور مغربی سمت میں جمرہ عقبہ ہے۔
۲؎: یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ۔
۳؎: یعنی سورج نکلنے کے بعد۔
قال الشيخ الألباني: صحيح حجة النبى صلى الله عليه وسلم (69 / 55)
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا عبد الله بن الاجلح، عن الاعمش، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى بمنى الظهر والفجر، ثم غدا إلى عرفات ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن الزبير، وانس. قال ابو عيسى: حديث مقسم عن ابن عباس، قال علي بن المديني: قال يحيى: قال شعبة: لم يسمع الحكم من مقسم إلا خمسة اشياء وعدها، وليس هذا الحديث فيما عد شعبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْفَجْرَ، ثُمَّ غَدَا إِلَى عَرَفَاتٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ إِلَّا خَمْسَةَ أَشْيَاءَ وَعَدَّهَا، وَلَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ فِيمَا عَدَّ شُعْبَةُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں ظہر اور فجر پڑھی ۱؎، پھر آپ صبح ہی صبح ۲؎ عرفات کے لیے روانہ ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مقسم کی حدیث ابن عباس سے مروی ہے، ۲- شعبہ کا بیان ہے کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ چیزیں سنی ہیں، اور انہوں نے انہیں شمار کیا تو یہ حدیث شعبہ کی شمار کی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی، ۳- اس باب میں عبداللہ بن زبیر اور انس سے بھی احادیث آئی ہے۔
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 65 (1929) (تحفة الأشراف: 7285) (صحیح) (ہر صلاة کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)»
وضاحت: ۱؎: اس کے برخلاف جابر رضی الله عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے، «واللہ اعلم» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1682 - 1690)
قال الشيخ زبير على زئي: (887) إسناده ضعيف / د 1929