(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن محمد بن المنكدر، وسالم ابي النضر , عن عبيد الله بن ابي رافع، عن ابي رافع وغيره، رفعه قال: " لا الفين احدكم متكئا على اريكته ياتيه امر مما امرت به او نهيت عنه فيقول: لا ادري ما وجدنا في كتاب الله اتبعناه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وروى بعضهم عن سفيان، عن ابن المنكدر، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وسالم ابي النضر، عن عبيد الله بن ابي رافع، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم , وكان ابن عيينة إذا روى هذا الحديث على الانفراد، بين حديث محمد بن المنكدر، من حديث سالم ابي النضر، وإذا جمعهما روى هكذا، وابو رافع مولى النبي صلى الله عليه وسلم اسمه: اسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَسَالِمٍ أبي النضر , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ وَغَيْرِهِ، رَفَعَهُ قَالَ: " لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ إِذَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى الِانْفِرَادِ، بَيَّنَ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، مِنْ حَدِيثِ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، وَإِذَا جَمَعَهُمَا رَوَى هَكَذَا، وَأَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمُهُ: أَسْلَمُ.
ابورافع رضی الله عنہ وغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو اور اس کے پاس میرے امر یا نہی کی قسم کا کوئی حکم پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض راویوں نے سفیان سے، سفیان نے ابن منکدر سے اور ابن منکدر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور بعض نے یہ حدیث سالم ابوالنضر سے، سالم نے عبیداللہ بن ابورافع سے، عبیداللہ نے اپنے والد ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ ۳- ابن عیینہ جب اس حدیث کو علیحدہ بیان کرتے تھے تو محمد بن منکدر کی حدیث کو سالم بن نضر کی حدیث سے جدا جدا بیان کرتے تھے اور جب دونوں حدیثوں کو جمع کر دیتے تو اسی طرح روایت کرتے (جیسا کہ اس حدیث میں ہے)۔ ۴- ابورافع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام اسلم ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 6 (4605)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (13) (تحفة الأشراف: 12019)، و مسند احمد (6/8) (صحیح)»