سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
32. باب مَا جَاءَ فِي مُبَاشَرَةِ الصَّائِمِ
32. باب: روزہ دار کا بوس و کنار کیا ہے؟
Chapter: What Has Been Related About Embracing For The Fasting Person
حدیث نمبر: 728
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا وكيع، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن ابي ميسرة، عن عائشة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يباشرني وهو صائم، وكان املككم لإربه ".(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُنِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مجھ سے بوس و کنار کرتے تھے، آپ اپنی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر ما بعدہ (تحفة الأشراف: 17418) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1684)
حدیث نمبر: 727
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، وقتيبة، قالا: حدثنا ابو الاحوص، عن زياد بن علاقة، عن عمرو بن ميمون، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يقبل في شهر الصوم ". قال: وفي الباب عن عمر بن الخطاب، وحفصة، وابي سعيد، وام سلمة، وابن عباس، وانس، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم في القبلة للصائم، فرخص بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في القبلة للشيخ، ولم يرخصوا للشاب مخافة ان لا يسلم له صومه والمباشرة عندهم اشد، وقد قال بعض اهل العلم: القبلة تنقص الاجر، ولا تفطر الصائم، وراوا ان للصائم إذا ملك نفسه ان يقبل، وإذا لم يامن على نفسه ترك القبلة ليسلم له صومه، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُقَبِّلُ فِي شَهْرِ الصَّوْمِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَحَفْصَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ، فَرَخَّصَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُبْلَةِ لِلشَّيْخِ، وَلَمْ يُرَخِّصُوا لِلشَّابِّ مَخَافَةَ أَنْ لَا يَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ وَالْمُبَاشَرَةُ عِنْدَهُمْ أَشَدُّ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْقُبْلَةُ تُنْقِصُ الْأَجْرَ، وَلَا تُفْطِرُ الصَّائِمَ، وَرَأَوْا أَنَّ لِلصَّائِمِ إِذَا مَلَكَ نَفْسَهُ أَنْ يُقَبِّلَ، وَإِذَا لَمْ يَأْمَنْ عَلَى نَفْسِهِ تَرَكَ الْقُبْلَةَ لِيَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر بن خطاب، حفصہ، ابو سعید خدری، ام سلمہ، ابن عباس، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صائم کے بوسہ لینے کے سلسلے میں صحابہ کرام وغیرہم کا اختلاف ہے۔ بعض صحابہ نے بوڑھے کے لیے بوسہ لینے کی رخصت دی ہے۔ اور نوجوانوں کے لیے اس اندیشے کے پیش نظر رخصت نہیں دی کہ اس کا صوم محفوظ و مامون نہیں رہ سکے گا۔ جماع ان کے نزدیک زیادہ سخت چیز ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے: بوسہ اجر کم کر دیتا ہے لیکن اس سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا، ان کا خیال ہے کہ روزہ دار کو اگر اپنے نفس پر قابو (کنٹرول) ہو تو وہ بوسہ لے سکتا ہے اور جب وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہ رکھ سکے تو بوسہ نہ لے تاکہ اس کا روزہ محفوظ و مامون رہے۔ یہ سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 12 (1110)، سنن ابی داود/ الصیام 33 (2383)، سنن ابن ماجہ/الصیام 19 (1683)، (تحفة الأشراف: 17423) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے روزے کی حالت میں بوسہ کا جواز ثابت ہوتا ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اور نفل روزے کی تفریق صحیح نہیں، رمضان کے روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1683)
حدیث نمبر: 729
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، والاسود، عن عائشة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل ويباشر وهو صائم، وكان املككم لإربه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو ميسرة اسمه عمرو بن شرحبيل، ومعنى لإربه لنفسه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَيْسَرَةَ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ، وَمَعْنَى لِإِرْبِهِ لِنَفْسِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیویوں کے ساتھ لپٹ کر لیٹتے تھے، آپ اپنی جنسی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور «لإربه» کے معنی «لنفسه» اپنے نفس پر کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 12 (1106)، سنن ابی داود/ الصیام 33 (2382)، (تحفة الأشراف: 1595 و17407) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 23 (1927)، وصحیح مسلم/الصیام (المصدرالسابق)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 19 (1684)، وسنن الدارمی/الصوم 21 (1763)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1687)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.