سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
15. باب مَا جَاءَ فِي بَيَانِ الْفَجْرِ
15. باب: صبح صادق کے واضح ہو جانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Clarifying Al-Fajr
حدیث نمبر: 706
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، ويوسف بن عيسى، قالا: حدثنا وكيع، عن ابي هلال، عن سوادة بن حنظلة هو القشيري، عن سمرة بن جندب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يمنعنكم من سحوركم اذان بلال ولا الفجر المستطيل، ولكن الفجر المستطير في الافق ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ سَوَادَةَ بْنِ حَنْظَلَةَ هُوَ الْقُشَيْرِيُّ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سُحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيلُ، وَلَكِنْ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيرُ فِي الْأُفُقِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان باز نہ رکھے اور نہ ہی لمبی فجر باز رکھے، ہاں وہ فجر باز رکھے جو کناروں میں پھیلتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 8 (1094)، سنن ابی داود/ الصیام 17 (2346)، سنن النسائی/الصیام 30 (2173)، (تحفة الأشراف: 4624)، مسند احمد (5/7، 9، 13، 18) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2031)
حدیث نمبر: 203
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تاذين ابن ام مكتوم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود , وعائشة , وانيسة , وانس , وابي ذر , وسمرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في الاذان بالليل، فقال بعض اهل العلم: إذا اذن المؤذن بالليل اجزاه ولا يعيد، وهو قول مالك , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: إذا اذن بليل اعاد، وبه يقول سفيان الثوري , وروى حماد بن سلمة، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، ان بلالا اذن بليل، فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان ينادي إن العبد نام. قال ابو عيسى: هذا حديث غير محفوظ والصحيح، ما روى عبيد الله بن عمر وغيره، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم " , وروى عبد العزيز بن ابي رواد، عن نافع، ان مؤذنا لعمر اذن بليل، فامره عمر ان يعيد الاذان، وهذا لا يصح ايضا، لانه عن نافع، عن عمر منقطع، ولعل حماد بن سلمة اراد هذا الحديث، والصحيح رواية عبيد الله وغير واحد، عن نافع، عن ابن عمر , والزهري، عن سالم، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن بلالا يؤذن بليل ". قال ابو عيسى: ولو كان حديث حماد صحيحا لم يكن لهذا الحديث معنى، إذ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بلالا يؤذن بليل " , فإنما امرهم فيما يستقبل، وقال: إن بلالا يؤذن بليل، ولو انه امره بإعادة الاذان حين اذن قبل طلوع الفجر لم يقل إن بلالا يؤذن بليل، قال علي بن المديني: حديث حماد بن سلمة، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم هو غير محفوظ، واخطا فيه حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةَ , وَأُنَيْسَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي ذَرٍّ , وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْأَذَانِ بِاللَّيْلِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ بِاللَّيْلِ أَجْزَأَهُ وَلَا يُعِيدُ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذَّنَ بِلَيْلٍ أَعَادَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ بِلَالًا أَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَادِيَ إِنَّ الْعَبْدَ نَامَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ، مَا رَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ " , وَرَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ مُؤَذِّنًا لِعُمَرَ أَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يُعِيدَ الْأَذَانَ، وَهَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا، لِأَنَّهُ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عُمَرَ مُنْقَطِعٌ، وَلَعَلَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ أَرَادَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَالصَّحِيحُ رِوَايَةُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَغَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَالزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَوْ كَانَ حَدِيثُ حَمَّادٍ صَحِيحًا لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى، إِذْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ " , فَإِنَّمَا أَمَرَهُمْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُ، وقَالَ: إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، وَلَوْ أَنَّهُ أَمَرَهُ بِإِعَادَةِ الْأَذَانِ حِينَ أَذَّنَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ لَمْ يَقُلْ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَأَخْطَأَ فِيهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، انیسہ، انس، ابوذر اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۳- رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہو تبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، مالک، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دیدے تو اسے دہرائے ۱؎، یہی سفیان ثوری کہتے ہیں،
۴- حماد بن سلمہ نے بطریق «ایوب عن نافع عن ابن عمر» روایت کی ہے کہ بلال رضی الله عنہ نے رات ہی میں اذان دے دی، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔ یہ حدیث غیر محفوظ ہے، صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں، اور عبدالعزیز بن ابی رواد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر رضی الله عنہ کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے، یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور شاید حماد بن سلمہ، کی مراد یہی حدیث ۲؎ ہو، صحیح عبیداللہ بن عمر دوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں،
۵- اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوتا، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں، آپ نے لوگوں کو آنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں اور اگر آپ طلوع فجر سے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، علی بن مدینی کہتے ہیں: حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے، اور ایوب نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور عمر نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے، حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 12 (620)، والصوم 17 (1918)، والشہادات 11 (2656)، وأخبار الآحاد 1 (7248)، صحیح مسلم/الصوم 8 (1092)، سنن النسائی/الأذان 9 (838)، (تحفة الأشراف: 60909)، موطا امام مالک/الصلاة 3 (14)، مسند احمد (2/9، 57، 123)، سنن الدارمی/الصلاة 4 (1226) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی راجح ہے، کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا، بلکہ نماز فجر کے لیے بلال اذان دیا کرتے۔
۲؎: شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظر عمر والا یہی اثر رہا ہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہونے کا وہم ہو گیا ہو، گویا انہیں یوں کہنا چاہیئے کہ عمر کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا، لیکن وہ وہم کے شکار ہو گئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (219)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.